يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ ۚ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۗ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
وہ تجھ سے فتوی مانگتے ہیں ، تو کہہ اللہ تمہیں کلالہ (اوت نپوت) کے بارے میں فتوی دیتا ہے کہ اگر کوئی مرد مر جائے اور اس کے اولاد نہ ہو اور اس کے ایک بہن ہو تو اس کو آدھا پہنچے گا جو چھوڑ مرا اور یہ بھائی بھی اس بہن کا وارث ہے اگر اس کے اولاد نہ ہو ، پھر اگر اس کے دو بہنیں ہوں تو اس کے ترکہ سے ان دونوں بہنوں کو دو تہائی ہیں ، اور اگر اس کے وارث کئی بہن بھائی ہوں تو مرد کا حصہ دوعورتوں کے برابر ہے ، اللہ تمہارے لئے بیان کرتا ہے تاکہ تم نہ بہکو اور اللہ ہر شے سے واقف ہے ۔
1- ”كَلالَةٌ“ کے بارے میں پہلے گزر چکا ہے کہ اس مرنے والے کو کہا جاتا ہے جس کا باپ ہو نہ بیٹا۔ یہاں پھر اس کی میراث کا ذکر ہو رہا ہے۔ بعض لوگوں نے کلالہ اس شخص کو قرار دیا ہے جس کا صرف بیٹا نہ ہو۔ یعنی باپ موجود ہو، لیکن یہ صحیح نہیں۔ کلالہ کی پہلی تعریف ہی صحیح ہے۔ کیونکہ باپ کی موجودگی میں بہن سرے سے وارث ہی نہیں ہوتی۔ باپ اس کے حق میں حاجب بن جاتا ہے۔ لیکن یہاں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اگر اس کی بہن ہو تو وہ اس کے نصف مال کی وارث ہوگی۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کلالہ وہ ہے کہ بیٹے کے ساتھ جس کا باپ بھی نہ ہو۔ یوں بیٹے کی نفی تو نص سے ثابت ہے اور باپ کی نفی اشارۃ النص سے ثابت ہو جاتی ہے۔ ملحوظہ : بیٹے سے مراد بیٹا اور پوتا دونوں ہیں۔ اسی طرح بہن سے مراد سگی بہن یا علاتی (باپ شریک) بہن ہے۔ (ایسرالتفاسیر) احادیث سے ثابت ہے کہ کلالہ کی بہن کے ساتھ بیٹی کی موجودگی میں بیٹی کو نصف اور بہن کو نصف اور بیٹی اور پوتی کی موجودگی میں بیٹی کو نصف، پوتی کو سدس (چھٹا حصہ) اور بہن کو باقی یعنی ثلث دیا گیا۔ (فتح القدیر وابن کثیر) اس سے معلوم ہوا کہ مرنے والے کی اولاد موجود ہو تو بہن کو بحیثیت ذوی الفروض کچھ نہیں ملے گا۔ اب اگر وہ اولاد بیٹا ہو تو کسی اور حیثیت سے بھی کچھ نہیں ملے گا۔ اور اگر بیٹی ہو تو بہن اس کے ساتھ عصبہ ہو جائے گی اورمَا بَقِيَ لے لے گی۔ یہ مابقی ایک بیٹی کی موجودگی میں نصف اور ایک سے زائد کی موجودگی میں ثلث ہوگا۔ 2- اسی طرح باپ بھی نہ ہو۔ اس لئے کہ باپ، بھائی سے قریب ہے، باپ کی موجودگی میں بھائی وارث ہی نہیں ہوتا اگر اس کلالہ عورت کا خاوند یا کوئی ماں جایا بھائی ہوگا تو ان کا حصہ نکالنے کے بعد باقی مال کا وارث بھائی قرار پائے گا۔ (ابن کثیر ) 3- یہی حکم دو سے زائد بہنوں کی صورت میں بھی ہوگا۔ گویا مطلب یہ ہوا کہ کلالہ شخص کی دو یا دو سے زائد بہنیں ہوں تو انہیں کل مال کا دو تہائی حصہ ملے گا۔ 4- یعنی کلالہ کے وارث مخلوط (مرد اور عورت دونوں) ہوں تو پھر ”ایک مرد دو عورت کے برابر“ کے اصول پر ورثے کی تقسیم ہوگی۔