سورة النسآء - آیت 142

إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بیشک منافق خدا کو (اپنے گمان میں) فریب دیتے ہیں اور خدا انہیں فریب دیتا ہے اور جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی سے کھڑے ہوتے ہیں لوگوں کو دکھلاتے ہیں اور خدا کو یاد نہیں کرتے مگر تھوڑا (ف ١)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس کی مختصر توضیح سورۂ بقرہ کے آغاز میں ہو چکی ہے۔ 2- نماز اسلام کا اہم ترین رکن اور اشرف ترین فرض ہے اور اس میں بھی وہ کاہلی اور سستی کا مظاہرہ کرتے تھے کیونکہ ان کا قلب ایمان، خشیت الٰہی اور خلوص سے محروم تھا۔ یہی وجہ تھی کہ عشا اور فجر کی نماز بطور خاص ان پر بہت بھاری تھی جیسا کہ نبی (ﷺ) کا فرمان ہے [أَثْقَلُ الصَّلاةِ عَلَى الْمُنَافِقِينَ صَلاةُ الْعِشَاءِ وَصَلاةُ الْفَجْرِ ... ] ( صحیح بخاری، مواقيت الصلاة- صحيح مسلم، كتاب المساجد) ”منافق پر عشا اور فجر کی نماز سب سے زیادہ بھاری ہے“۔ 3- یہ نماز بھی وہ صرف ریاکاری اور دکھلاوے کے لئے پڑھتے تھے، تاکہ مسلمانوں کو فریب دے سکیں۔ 4- اللہ کا ذکر تو برائے نام کرتے ہیں یا نماز مختصر سی پڑھتے ہیں ”أی لا يُصَلُّونَ إِلا صَلاةً قَلِيلَةً“ جب نماز اخلاص، خشیت الٰہی اور خشوع سے خالی ہو تو اطمینان سے نماز کی ادائیگی نہایت گراں ہوتی ہے۔ جیسا کہ ﴿وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلا عَلَى الْخَاشِعِينَ﴾ (البقرۃ: 45) سے واضح ہے، حدیث میں نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”یہ منافق کی نماز ہے، یہ منافق کی نماز ہے، یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان (یعنی غروب کے قریب) ہو جاتا ہے تو اٹھتاہے اور چار ٹھونگیں مار لیتا ہے“۔ (صحيح مسلم، كتاب المساجد- موطأ كتاب القرآن)۔