سورة النسآء - آیت 128

وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۚ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ۗ وَأُحْضِرَتِ الْأَنفُسُ الشُّحَّ ۚ وَإِن تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی طرف سے اس کے لڑنے یا منہ پھیر لینے سے ڈرے تو ان دونوں میاں بیوی پر اس میں کچھ گناہ نہیں کہ آپس میں کسی طرح صلح کرلیں اور صلح بہتر ہے اور دلوں میں حرص رکھی گئی ہے ۔ اور اگر تم نیکو کاری اور پرہیزگاری کرو تو خدا تمہارے کاموں سے خبردار ہے ۔ (ف ٢)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- خاوند اگر کسی وجہ سے اپنی بیوی کو ناپسند کرے اور اس سے دور رہنا (نشوز) اور اعراض کرنا معمول بنالے یا ایک سے زیادہ بیویاں ہونے کی صورت میں کسی کم تر خوب صورت بیوی سے اعراض کرے تو عورت اپنا کچھ حق چھوڑ کر (مہر سے یا نان ونفقہ سے یا باری سے) خاوند سے مصالحت کر لے تو اس مصالحت میں خاوند یا بیوی پر کوئی گناہ نہیں۔ کیونکہ صلح بہرحال بہتر ہے۔ حضرت ام المومنین سودۃ (رضی الله عنها) نے بھی بڑھاپے میں اپنی باری حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کے لئے ہبہ کر دی تھی جسے نبی (ﷺ) نے قبول فرما لیا تھا۔ (صحیح بخاری ومسلم- كتاب النكاح) 2- شح بخل اور طمع کو کہتے ہیں۔ یہاں مراد اپنا اپنا مفاد ہے جو ہر نفس کو عزیز ہوتا ہے یعنی ہر نفس اپنے مفاد میں بخل اور طمع سے کام لیتا ہے۔