سورة النسآء - آیت 94

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِندَ اللَّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ ۚ كَذَٰلِكَ كُنتُم مِّن قَبْلُ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مسلمانو ! جب تم خدا کی راہ میں (یعنی جہاد میں سفر کرو تو خوب دریافت کرو اور جو کوئی تمہیں سلام علیک کہے اسے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے تم دنیا کی زندگی کے لئے سامان کی تلاش میں ہو (کہ اسے لوٹو) سو خدا کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں (ف ٢) تم بھی پہلے ایسے ہی تھے ، پھر اللہ نے تم پر فضل کیا پس خوب تحقیق کرو ، خدا تمہارے کاموں سے خبردار ہے ۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- احادیث میں آتا ہے کہ بعض صحابہ کسی علاقے سے گزرے جہاں ایک چرواہا بکریاں چرا رہا تھا، مسلمانوں کو دیکھ کر چرواہے نے سلام کیا، بعض صحابہ نے سمجھا کہ شاید وہ جان بچانے کے لئے اپنے کو مسلمان ظاہر کر رہا ہے، چنانچہ انہوں نے بغیر تحقیق کئے اسے قتل کر ڈالا، اور بکریاں (بطور مال غنیمت) لے کر حضور (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (صحيح بخاري، ترمذي تفسير سورة النساء) بعض روایات میں آتا ہے کہ نبی (ﷺ) نے یہ بھی فرمایا کہ مکہ میں پہلے تم بھی اس چرواہے کی طرح ایمان چھپانے پر مجبور تھے (صحيح بخاري، كتاب الديات) مطلب یہ تھا کہ اس قتل کا کوئی جواز نہیں تھا۔ 2- یعنی تمہیں چند بکریاں، اس مقتول سے حاصل ہوگئیں، یہ کچھ بھی نہیں اللہ کے پاس اس سے کہیں زیادہ بہتر غنیمتیں ہیں جو اللہ ورسول کی اطاعت کی وجہ سے تمہیں دنیا میں بھی مل سکتی ہیں اور آخرت میں تو ان کا ملنا یقینی ہے۔