وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً ۚ وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ إِلَّا أَن يَصَّدَّقُوا ۚ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
اور کسی مسلمان کو لائق نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو قتل کرے مگر بھول چوک سے اور جو کوئی مسلمان کو بھول سے قتل کرے (ف ٢) تو اس کو ایک مسلمان گردن آزاد کرنا اور مقتول کے گھروالوں کو خون بہا دینا چاہئے مگر یہ اس کے وارث خیرات کردیں ، پھر اگر مقتول مومن تمہاری دشمن قوم سے ہو تو صرف ایک مسلمان گردن آزاد کرنا ہے اور اگر مقتول اس قوم میں سے ہو جس کے ساتھ تمہارا عہد ہے تب اس کے وارثوں کو خون بہا دینا ہے ، اور مسلمان گردن بھی آزاد کرنا پھر جس کو میسر نہ وہ تو دو مہینے کے لگا تار روزے رکھے ۔ یہ خدا سے گناہ بخشوانے کو ہے اور خدا جاننے والا حکمت والا ہے ۔
1- یہ نفی، نہی کے معنی میں ہے جو حرمت کی متقاضی ہے یعنی ایک مومن کا دوسرے مومن کو قتل کرنا ممنوع اور حرام ہے جیسے ﴿وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ﴾ (الأحزاب: 53) ”تمہارے یہ لائق نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول (ﷺ) کو ایذا پہنچاو“ یعنی حرام ہے۔ 2- غلطی کے اسباب ووجوہ متعدد ہو سکتے ہیں۔ مقصد ہے کہ نیت اور ارادہ قتل کا نہ ہو۔ مگر بوجوہ قتل ہو جائے۔ 3- یہ قتل خطا کا جرمانہ بیان کیا جا رہا ہے جو دو چیزیں ہیں۔ ایک بطور کفّارہ واستغفار ہے۔ یعنی مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور دوسری چیز بطور حق العباد کے ہے اور وہ ہے ”دِيَةٌ“ (خون بہا )۔ مقتول کے خون کے بدلے میں جو چیز مقتول کے وارثوں کو دی جائے، وہ دیت ہے۔ اور دیت کی مقدار احادیث کی رو سے سو اونٹ یا اس کے مساوی قیمت سونے، چاندی یا کرنسی کی شکل میں ہوگی۔ ملحوظة: خیال رہے کہ قتل عمد میں قصاص یا دیت مغلظہ ہے اور دیتِ مغلظہ کی مقدار سو اونٹ ہے جو عمر اور وصف کے لحاظ سے تین قسم یا تین معیار کے ہوں گے۔ جب کہ قتل خطا میں صرف دیت ہے۔ قصاص نہیں ہے۔ اس دیت کی مقدار سو اونٹ ہے مگر معیار اتنا کڑا نہیں۔ علاوہ ازیں اس دیت کی قیمت سنن ابی داود کی حدیث میں 800 دینار یا 8 ہزار درہم اور ترمذی کی روایت میں بارہ ہزار درہم بتلائی گئی ہے۔ اسی طرح حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے اپنے دور خلافت میں قیمت دیت میں کمی بیشی اور مختلف پیشوں والوں کے اعتبار سے اس کی مختلف نوعیتیں مقرر فرمائی تھیں۔ (ارواء الغلیل جلد: 8) جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل دیت (سو اونٹ) کی بنیاد پر اس کی قیمت ہر دور کے اعتبار سے مقرر کی جائے گی۔ (تفصیل کے لئے شروح حدیث وکتب فقہ ملاحظہ ہوں ) 4- معاف کر دینے کو صدقہ سے تعبیر کرنے سے مقصد معافی کی ترغیب دینا ہے۔ 5- یعنی اس صورت میں دیت نہیں ہوگی۔ اس کی وجہ بعض نے یہ بیان کی ہے کہ کیونکہ اس کے وراث حربی کافر ہیں، اس لئے وہ مسلمان کی دیت لینے کے حق دار نہیں۔ بعض نے یہ وجہ بیان کی ہے کہ اس مسلمان نےاسلام قبول کرنے کے بعد چونکہ ہجرت نہیں کی، جب کہ ہجرت کی اس وقت بڑی تاکید تھی۔ اس کوتاہی کی وجہ سے اس کے خون کی حرمت کم ہے۔ (فتح القدیر ) 6- یہ ایک تیسری صورت ہے، اس میں بھی وہی کفارہ اور دیت ہے جو پہلی صورت میں ہے، بعض نے کہا ہے کہ اگر مقتول معاہد (ذمی) ہو تو اس کی دیت مسلمان کی دیت سے نصف ہوگی، کیونکہ حدیث میں کافر کی دیت مسلمان کی دیت سے نصف بیان کی گئی ہے۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس تیسری صورت میں بھی مقتول مسلمان ہی کا حکم بیان کیا جا رہا ہے۔ 7- یعنی اگر گردن آزاد کرنے کی استطاعت نہ ہو تو پہلی صورت اور اس آخری صورت میں دیت کے ساتھ مسلسل لگاتار (بغیر ناغہ کے) دو مہینے کے روزے ہیں۔ اگر درمیان میں ناغہ ہوگیا تو نئے سرے سے روزے رکھنے ضروری ہوں گے۔ البتہ عذر شرعی کی وجہ سے ناغہ ہونے کی صورت میں نئے سرے سے روزے رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسے حیض، نفاس یا شدید بیماری، جو روزہ رکھنے میں مانع ہو، سفر کے عذرشرعی ہونے میں اختلاف ہے۔ (ابن كثير)