إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا
آنے سے راہ دکھائی یا شکر گزار ہے یا نہ (ف 2) شکرا
1- یعنی اسے سماعت اور بصارت کی قوتیں عطا کیں، تاکہ وہ سب کچھ دیکھ سکے اور سن سکے اور اس کے بعد اطاعت یا انکاری دونوں راستوں میں کسی ایک کا انتخاب کر سکے۔ 2- یعنی مذکورہ قوتوں اور صلاحیتوں کے علاوہ ہم نے خود بھی انبیاء علیہ السلام، اپنی کتابوں اور داعیان حق کے ذریعے سے صحیح راستے کو بیان اور واضح کردیا ہے اب یہ اس کی مرضی ہے کہ اطاعت الہی کا راستہ اختیار کر کے شکر گزار بندہ بن جائے یا معصیت کا راستہ اختیار کر کے اس کا ناشکرا بن جائے۔ جیسے ایک حدیث میں نبی (ﷺ) نے فرمایا: [ كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو فَبَائِعٌ نَفْسَهُ فَمُوبِقُهَا أَوْ مُعْتِقُهَا ]، (صحیح مسلم، کتاب الطهارة، باب فضل الوضوء) ”ہر شخص اپنے نفس کی خرید وفروخت کرتا ہے، پس اسے ہلاک کرتا ہے یا اسے آزاد کرالیتا ہے“۔ یعنی اپنے عمل وکسب کے ذریعے سے ہلاک یا آزاد کرالیتا ہے، اگر شر کمائے گا تو اپنے نفس کو ہلاک اور خیر کمائے گا تو نفس کو آزاد کرالے گا۔