سورة الصف - آیت 14

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ ۖ فَآمَنَت طَّائِفَةٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَت طَّائِفَةٌ ۖ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَىٰ عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مومنو ! تم اللہ کے انصار (مددگار) ہوجاؤ جیسے مریم کے بیٹے عیسیٰ نے حواریوں (اپنے یاروں) سے کہا تھا کہ کون ہے جو اللہ کی راہ (ف 1) میں میری مدد کرے ۔ حواری (یار) بولے ۔ کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں ۔ پھر بنی اسرائیل میں ایک جماعت ایمان لائی اور ایک جماعت کافر رہی ۔ سو ہم نے ان لوگوں کو جو ایمان دار تھے ۔ ان کے دشمنوں پر مدد دی ۔ پھر وہ غالب رہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- تمام حالتوں میں، اپنے اقوال وافعال کے ذریعے سے بھی اور جان ومال کے ذریعے سے بھی۔ جب بھی، جس وقت بھی اور جس حالت میں بھی تمہیں اللہ اور اس کا رسول اپنے دین کے لیے پکارے تم فوراً ان کی پکار پر لبیک کہو، جس طرح حواریین نے عیسیٰ (عليہ السلام) کی پکار پر لبیک کہا۔ 2- یعنی ہم آپ (ﷺ) کے اس دین کی دعوت وتبلیغ میں مددگار ہیں جس کی نشرواشاعت کا حکم اللہ نے آپ (ﷺ) کو دیا ہے۔ اسی طرح رسول اللہ (ﷺ) ایام حج میں فرماتے (کون ہے جو مجھے پناہ دے تاکہ میں لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچا سکوں، اس لیے کہ قریش مجھے فریضۂ رسالت ادا نہیں کرنے دیتے)۔ حتیٰ کہ آپ (ﷺ) کی اس پکار پر مدینے کے اوس اور خزرج نے لبیک کہا، آپ (ﷺ) کے ہاتھ پر انہوں نے بیعت کی اور آپ (ﷺ) کی مدد کا وعدہ کیا۔ نیز آپ (ﷺ) کو یہ پیشکش کی کہ اگر آپ (ﷺ) ہجرت کرکے مدینہ آجائیں تو آپ (ﷺ) کی حفاظت کی ذمے داری ہم قبول کرتے ہیں۔ چنانچہ جب آپ (ﷺ) ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو وعدے کے مطابق انہوں نے آپ (ﷺ) کی اور آپ (ﷺ) کے تمام ساتھیوں کی پوری مدد کی۔ حتیٰ کہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) نے ان کا نام ہی (انصار) رکھ دیا اور اب یہ ان کا علم بن گیا۔( رضی الله عنہم وَأَرْضَاهُمْ )(ابن کثیر) 3- یہ یہود تھے جنہوں نے نبوت عیسیٰ (عليہ السلام) ہی کا انکار نہیں کیا بلکہ ان پر اور ان کی ماں پر بہتان تراشی کی۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ اختلاف وتفرق اس وقت ہوا، جب حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کو آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ ایک نے کہا کہ عیسیٰ (عليہ السلام) کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہی زمین پر ظہور فرمایا تھا، اب وہ پھر آسمان پر چلا گیا ہے، یہ فرقہ یعقوبیہ کہلاتا ہے۔ نسطوریہ فرقے نے کہا کہ وہ ابن اللہ تھے، باپ نے بیٹے کو آسمان پر بلا لیا ہے۔ تیسرے فرقے نے کہا وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے، یہی فرقہ صحیح تھا۔ 4- یعنی نبی (ﷺ) کو مبعوث فرما کر ہم نے اسی آخری جماعت کی، دوسرے باطل گروہوں کے مقابلے میں مدد کی۔ چنانچہ یہ صحیح عقیدے کی حامل جماعت نبی (ﷺ) پر بھی ایمان لے آئی اور یوں ہم نے ان کو دلائل کے لحاظ سے بھی سب کافروں پر غلبہ عطا فرمایا اور قوت وسلطنت کے اعتبار سے بھی۔ اس غلبے کا آخری ظہور اس وقت پھر ہوگا، جب قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کا دوبارہ نزول ہوگا، جیسا کہ اس نزول اور غلبے کی صراحت احادیث صحیحہ میں تواتر کے ساتھ منقول ہے۔