سورة المجادلة - آیت 1

قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارہ میں جھگڑا کررہی تھی اور اللہ کی طرف شکایت کرتی تھی اور اللہ تم دونوں کی باتیں سنتا تھا بےشک اللہ سنتا دیکھتا ہے (ف 1)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یہ اشارہ ہے حضرت خولہ بنت مالک بن ثعلبہ (رضی الله عنہا) کے واقعہ کی طرف، جن کے خاوند حضرت اوس بن صامت (رضی الله عنہ) نے ان سے ظہار کر لیا تھا، ظہار کا مطلب ہے، بیوی کو یہ کہہ دینا (أَنْتِ عَلَيَّ كَظَهْرِ أُمِّي) (تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے) زمانۂ جاہلیت میں ظہار کو طلاق سمجھا جاتا تھا۔ حضرت خولہ (رضی الله عنہا) سخت پریشان ہوئیں اس وقت تک اس کی بابت کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ اس لیے وہ نبی (ﷺ) کے پاس آئیں تو آپ (ﷺ) نے بھی کچھ توقف فرمایا اور وہ آپ سے بحث وتکرار کرتی رہیں۔ جس پر یہ آیات نازل ہوئیں ، جن میں مسئلہ ظہار اور اس کا حکم وکفارہ بیان فرما دیا گیا۔ (أبو داود، كتاب الطلاق، باب في الظهار) حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح لوگوں کی باتیں سننے والا ہے کہ یہ عورت گھر کے ایک کونے میں نبی (ﷺ) سے مجادلہ کرتی اور اپنے خاوند کی شکایت کرتی رہی، مگر میں اس کی باتیں نہیں سنتی تھی۔ لیکن اللہ نے آسمانوں پر سے اس کی بات سن لی، (سنن ابن ماجہ ، المقدمة ، باب فيما أنكرت الجهمية - صحيح بخاری میں بھی تعلیقاً اس کا مختصر ذکر ہے۔ كتاب التوحيد ،( باب قول الله تعالى ﴿وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا بَصِيرًا﴾