سورة الحديد - آیت 27

ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِم بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا ۖ فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پھر ان کے پیچھے ان کے نقش قدم پر ہم نے اپنے رسول بھیجے اور پیچھے لائے ۔ ہم نے عیسیٰ بن مریم کو انجیل دی اور جو لوگ اس کے تابع ہوئے ان کے دلوں میں شفقت اور رحمت ڈالی اور ایک دنیا چھوڑنا جسے انہوں نے خود نکالا لکھا تھا ہم نے اس کو اوپر اوپر ان کے مگر واسطے ڈھونڈنے رضامندی خدا کے تھی بموجباس کو نباہنا چاہیے تھا ۔ ویسا نہ نباہ سکے ۔ پھر جو ان میں ایماندار تھے ہم نے ان کا اجرا نہیں دیا ۔ اور ان میں بہت بدکار ہیں

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- رَأْفَةٌ کےمعنی نرمی اور رحمت کے معنی شفقت کے ہیں۔ پیروکاروں سےمراد حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کے حواری ہیں۔ یعنی ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے پیار اور محبت کے جذبات پیدا کر دیے۔ جیسے صحابہ کرام (رضی الله عنہم) ایک دوسرے کے لیے رحیم وشفیق تھے۔ ﴿رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ﴾ - یہود، آپس میں اس طرح ایک دوسرے کے ہمدرد اور غم خوار نہیں، جیسے حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کے پیروکار تھے۔ 2- رَهْبَانِيَّةٌ، رَهْبٌ (خوف) سے ہے یا رُهْبَانٌ (درویش) کی طرف منسوب ہے اس صورت میں ”رے“ پر پیش رہے گا، یا اسے رہبنہ کی طرف منسوب مانا جائے تو اس صورت میں ”رے“ پر زبر ہوگا۔ رہبانیت کا مفہوم ترک دنیا ہے یعنی دنیا اور علائق دنیا سے منقطع ہو کر کسی جنگل، صحراء میں جا کر اللہ کی عبادت کرنا، اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کے بعد ایسے بادشاہ ہوئے جنہوں نےتورات اور انجیل میں تبدیلی کر دی، جسے ایک جماعت نےقبول نہیں کیا۔ انہوں نے بادشاہوں کے ڈر سے پہاڑوں اور غاروں میں پناہ حاصل کرلی۔ یہ اس کا آغاز تھا، جس کی بنیاد اضطرار پر تھی۔ لیکن ان کے بعد آنے والے بہت سے لوگوں نے اپنے بزرگوں کو اندھی تقلید میں اس شہربدری کو عبادت کا ایک طریقہ بنا لیا اور اپنے آپ کو گرجاؤں اور معبدوں میں محبوس کر لیا اور اس کے لیے علائق دنیا سے انقطاع کو ضروری قراردے لیا۔ اسی کو اللہ نے ابتداع (خود گھڑنے) سے تعبیر فرمایا ہے۔ 3- یہ پچھلی بات ہی کی تاکید ہے کہ یہ رہبانیت ان کی اپنی ایجاد تھی، اللہ نے اس کا حکم نہیں دیا تھا۔ 4- یعنی ہم نے تو ان پر صرف رضا جوئی فرض کی تھی۔ دوسرا ترجمہ اس کا ہے کہ انہوں نے یہ کام اللہ کی رضا تلاش کرنے کے لیے کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرما دی کہ اللہ کی رضا، دین میں اپنی طرف سے بدعات ایجاد کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتی، چاہے وہ کتنی ہی خوش نما ہو۔ اللہ کی رضا تو اس کی اطاعت سے ہی حاصل ہو گی۔ 5- یعنی گو انہوں نے مقصد اللہ کی رضاجوئی بتلایا، لیکن اس کی انہوں نے پوری رعایت نہیں کی، ورنہ وہ ابتداع (بدعت ایجاد کرنے) کے بجائے اتباع کا راستہ اختیار کرتے۔ 6- یہ وہ لوگ ہیں جو دین عیسیٰ پر قائم رہے تھے۔