سورة النسآء - آیت 19

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا ۖ وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مومنو ! تمہیں زبردستی عورتوں کا وارث بننا حلال نہیں (ف ١) اور نہ یہ کہ انہیں بند رکھو ‘ تاکہ اپنا دیا ہوا کچھ ان سے چھین لو ، ہاں جب وہ آشکارا بےحیائی کریں (تو مضائقہ نہیں) اور عورتوں کے ساتھ اچھی طرح رہا کرو ، پھر اگر وہ تمہیں بری معلوم ہوں تو شاید کہ تم کسی شے کو برا سمجھو اور خدا اس میں سے بہت بھلائی پیدا کرے ۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اسلام سے قبل عورت پر ایک یہ ظلم بھی ہوتا تھا کہ شوہر کے مرجانے پر اس کے گھر کے لوگ اس کے مال کی طرح اس کی عورت کےبھی زبردستی وارث بن بیٹھتے تھے اور خود اپنی مرضی سے، اس کی رضا مندی کے بغیر اس سے نکاح کر لیتے یا اپنے بھائی، بھتیجے سے اس کا نکاح کر دیتے، حتی کہ سوتیلابیٹا تک بھی مرنے والے باپ کی عورت سے نکاح کر لیتا یا اگر چاہتے تو اسے کسی بھی جگہ نکاح کرنے کی اجازت نہ دیتے اور وہ ساری عمر یوں ہی گزارنے پر مجبور ہوتی۔ اسلام نے ظلم کے اس تمام طریقوں سے منع فرما دیا۔ 2- ایک ظلم یہ بھی عورت پر کیا جاتا تھا کہ اگر خاوند کو وہ پسند نہ ہوتی اور وہ اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تو ازخود اس کو طلاق نہ دیتا (جس طرح ایسی صورت میں اسلام نے طلاق کی اجازت دی ہے) بلکہ اسے خوب تنگ کرتا تاکہ وہ مجبور ہو کر حق مہر یا جو کچھ خاوند نے اسے دیا ہوتا، از خود واپس کرکے اس سے خلاصی حاصل کرنے کو ترجیح دے اسلام نے اس حرکت کو بھی ظلم قرار دیا ہے۔ 3- کھلی برائی سے مراد بدکاری یا بدزبانی اور نافرمانی ہے۔ ان دونوں صورتوں میں البتہ یہ اجازت دی گئی ہے کہ خاوند اس کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرے کہ وہ اس کا دیا ہوا مال یا حق مہر واپس کرکے خلع کرانے پر مجبور ہو جائے جیسا کہ خلع کی صورت میں خاوند کو حق مہر واپس لینے کا حق دیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورہ بقرہ آیت نمبر 229) 4- یہ بیوی کے ساتھ حسن معاشرت کا وہ حکم ہے جس کی قرآن نے بڑی تاکید کی ہے اور احادیث میں بھی نبی (ﷺ) نے اس کی بڑی وضاحت اور تاکید کی ہے ایک حدیث میں آیت کے اس مفہوم کو یوں بیان کیا گیا ہے [ لا يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً إِنْ سَخِطَ مِنْهَا خُلُقًا، رَضِيَ مِنْهَا آخَرَ ]، (صحیح مسلم، کتاب الرضاع) ”مومن مرد (شوہر) مومنہ عورت (بیوی) سے بغض نہ رکھے۔ اگر اس کی ایک عادت اسے ناپسند ہے تو اس کی دوسری عادت پسندیدہ بھی ہو گی“، مطلب یہ ہے کہ بے حیائی اور نشوز وعصیان کے علاوہ اگر بیوی میں کچھ اور کوتاہیاں ہوں جن کی وجہ سے خاوند اسے ناپسند کرتا ہو تو اسے جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طلاق نہ دے بلکہ صبر اور برداشت سے کام لے، ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ اس میں سے اس کے لئے خیر کثیر پیدا فرما دے۔ یعنی نیک اولاد دے دے یا اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے کاروبار میں برکت ڈال دے،وغیرہ وغیرہ۔ افسوس ہے کہ مسلمان قرآن وحدیث کی ان ہدایات کے برعکس ذرا ذرا سی باتوں میں اپنی بیویوں کو طلاق دے ڈالتے ہیں اور اس طرح اسلام کے عطا کردہ حق طلاق کو نہایت ظالمانہ طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ حق تو انتہائی ناگزیر حالات میں استعمال کے لئے دیا گیا تھا، نہ کہ گھر اجاڑنے، عورتوں پر ظلم کرنے اور بچوں کی زندگیاں خراب کرنے کے لئے۔ علاوہ ازیں اس طرح یہ اسلام کی بدنامی کا بھی باعث بنتے ہیں کہ اسلام نے مرد کو طلاق کا حق دے کر عورت پر ظلم کرنے کا اختیار اسے دے دیا۔ یوں اسلام کی ایک بہت بڑی خوبی کو خرابی اور ظلم باور کرایا جاتا ہے۔