سورة الفتح - آیت 2

لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تاکہ اللہ تیری اگلی اور پچھلی لغزشیں معاف کرے اور تجھ پر اپنی نعمت تمام کرے ۔ اور تجھے سیدھی راہ دکھائے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس سے مراد ترک اولیٰ والے معاملات یا وہ امور ہیں جو آپ (ﷺ) نے اپنی فہم واجتہاد سے کیے، لیکن اللہ نے انہیں ناپسند فرمایا، جیسے عبداللہ بن ام مکتوم (رضی الله عنہ) وغیرہ کا واقعہ ہے جس پر سورۂ عبس کا نزول ہوا، یہ معاملات وامور اگرچہ گناہ اور منافی عصمت نہیں، لیکن آپ (ﷺ) کی شان ارفع کے پیش نظر انہیں بھی کوتاہیاں شمار کر لیا گیا، جس پر معافی کا اعلان فرمایا جا رہا ہے۔ لِيَغْفِرَ میں لام تعلیل کے لئے ہے۔ یعنی یہ فتح مبین ان تین چیزوں کا سبب ہے جو آیت میں مذکور ہیں۔ اور یہ مغفرت ذنوب کا سبب، اس اعتبار سے ہے کہ اس صلح کے بعد قبول اسلام کرنے والوں کی تعداد میں بکثرت اضافہ ہوا، جس سے آپ (ﷺ) کے اجر عظیم میں بھی خوب اضافہ ہوا اور حسنات، وبلندی درجات میں بھی۔ 2- اس دین کو غالب کرکے جس کی تم دعوت دیتے ہو۔ یا فتح وغلبہ عطا کرکے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ مغفرت اور ہدایت پر استقامت یہی اتمام نعمت ہے (فتح القدیر)۔ 3- یعنی اس پر استقامت نصیب فرمائے۔ ہدایت کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجات سے نوازے۔