سورة آل عمران - آیت 167

وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُوا ۚ وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوِ ادْفَعُوا ۖ قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاكُمْ ۗ هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ ۚ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

نیز ان لوگوں کو ظاہر کرے جو منافق ہوئے اور انہیں کہا گیا کہ آؤ خدا کی راہ میں لڑو ۔ یا دشمنوں کو دفع کرو تو کہنے لگے ، اگر ہم لڑائی جانتے تو ضرور ہم تمہارے ساتھ چلتے ، اس دن وہ لوگ ایمان کی نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے (ف ٢) اپنے منہ سے وہ کچھ کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے اور خدا خوب جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں ۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی احد میں تمہیں جو کچھ نقصان پہنچا، وہ اللہ کے حکم سے ہی پہنچا ہے (تاکہ آئندہ تم اطاعت رسول کا کما حقہ اہتمام کرو) علاوہ ازیں اس کا ایک مقصد مومنین اور منافقین کو ایک دوسرے سے الگ اور ممتاز کرنا بھی تھا۔ 2- لڑائی جاننے کا مطلب یہ ہے کہ اگر واقعی آپ لوگ لڑائی لڑنے چل رہے ہوتے تو ہم بھی ساتھ دیتے۔ مگر آپ تو لڑائی کے بجائے اپنے آپ کو تباہی کے دہانے میں جھونکتے جا رہے ہیں۔ ایسے غلط کام میں ہم کیوں آپ کا ساتھ دیں۔ یہ عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں نے اس لئے کہا کہ ان کی بات نہیں مانی گئی تھی اور اس وقت کہا جب وہ مقام شوط پر پہنچ کر واپس ہو رہے تھے اور عبداللہ بن حرام انصاری (رضي الله عنه) انہیں سمجھا بجھا کر شریک جنگ کرنے کی کوشش کر رہے تھے (قدرے تفصیل گزر چکی ہے ) 3- اپنے نفاق اور ان باتوں کی وجہ سے جو انہوں نے کیں۔ 4- یعنی زبان سے تو ظاہر کیا جو مذکور ہوا لیکن دل میں یہ تھا کہ ہماری علیحدگی سے ایک تو مسلمانوں کے اندر بھی ضعف پیدا ہوگا۔ دوسرے، کافروں کو فائدہ ہوگا۔ مقصد اسلام، مسلمانوں اور نبی کریم (ﷺ) کو نقصان پہنچانا تھا۔