سورة محمد - آیت 15

مَّثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۖ فِيهَا أَنْهَارٌ مِّن مَّاءٍ غَيْرِ آسِنٍ وَأَنْهَارٌ مِّن لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ وَأَنْهَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشَّارِبِينَ وَأَنْهَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى ۖ وَلَهُمْ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ ۖ كَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِي النَّارِ وَسُقُوا مَاءً حَمِيمًا فَقَطَّعَ أَمْعَاءَهُمْ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اس بہشت (ف 2) کا بیان جس کا متقیوں سے وعدہ ہوا ہے یہ ہے کہ وہاں انی مکی نہریں ہیں جس میں بدبو نہیں اور دودھ کی نہریں ہیں جن کا مزہ نہیں بدلا اور شراب کی نہریں جو پینے والوں کو لذت دیتی ہے اور صاف (جھاگ اتارے ہوئے) شہد کی نہریں ہیں اور ان کے لئے وہاں ہر قسم کا میوہ ہے اور ان کے رب کی طرف سے معانی ۔ کیا یہ لوگ ان کی مانند ہوسکتے ہیں جو ہمیشہ آگ میں رہیگے اور وہ کھولتا ہوا پانی پلائے جائینگے پھر وہ ان کی انتڑیاں کاٹ ڈالے گا

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- آسِنٍ کے معنی، متغیر۔ یعنی بدل جانے والا، غیر آسن نہ بدلنے والا۔ یعنی دنیا میں تو پانی کسی ایک جگہ کچھ دیر پڑا رہے تو اس کا رنگ متغیر ہو جاتا ہے اور اس کی بو اور ذائقے میں تبدیلی آجاتی ہے جس سے وہ مضر صحت ہو جاتا ہے۔ جنت کے پانی کی یہ خوبی ہوگی کہ اس میں کوئی تغیر نہیں ہوگا۔ یعنی اس کی بو اور ذائقے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ جب پیو، تازہ، مفرح اور صحت افزا جب دنیا کا پانی خراب ہو سکتا ہے تو شریعت نے اسی لئے پانی کی بابت کہا ہے کہ یہ پانی اس وقت تک پاک ہے، جب تک اس کا رنگ یا بو نہ بدلے، کیونکہ رنگ یا بو متغیر ہونے کی صورت میں پانی ناپاک ہو جائے گا۔ 2- جس طرح دنیا میں وہ دودھ بعض دفعہ خراب ہو جاتا ہے جو گایوں، بھینسوں اور بکریوں وغیرہ کے تھنوں سے نکلتا ہے۔ جنت کا دودھ چونکہ اس طرح جانوروں کے تھنوں سے نہیں نکلے گا، بلکہ اس کی نہریں ہوں گی، اس لئے، جس طرح وہ نہایت لذیذ ہوگا، خراب ہونے سے بھی محفوظ ہوگا۔ 3- دنیا میں جو شراب ملتی ہے، وہ عام طور پر تلخ، بدمزہ اور بدبو دار ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں پی کر انسان بالعموم حواس باختہ ہو جاتا ہے، اول فول بکتا ہے اور اپنے جسم تک کا ہوش اسے نہیں رہتا۔ جنت کی شراب دیکھنے میں حسین، ذائقے میں اعلیٰ اور نہایت خوشبودار ہوگی اور اسے پی کر کوئی انسان بہکے گا، نہ کوئی گرانی محسوس کرے گا۔ بلکہ ایسی لذت وفرحت محسوس کرے گا جس کا تصور اس دنیا میں ممکن نہیں جیسے دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿لا فِيهَا غَوْلٌ وَلا هُمْ عَنْهَا يُنْزَفُونَ﴾ (سورة الصافات: 47) نہ اسے چکر آئے گا نہ عقل جائے گی۔ مزید دیکھئے (سورة الواقعہ: 19)۔ 4- یعنی شہد میں بالعموم جن چیزوں کی آمیزش کا امکان رہتا ہے، جس کا مشاہدہ دنیا میں عام ہے جنت میں ایسا کوئی اندیشہ نہیں ہوگا۔ بالکل صاف شفاف ہوگا، کیونکہ یہ دنیا کی طرح مکھیوں سے حاصل کردہ نہیں ہوگا، بلکہ اس کی بھی نہریں ہوں گی۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا۔ جب بھی تم سوال کرو تو جنت الفردوس کی دعا کرو، اس لئے کہ وہ جنت کا درمیانہ اور اعلیٰ درجہ ہے اور وہیں سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں اور اس کے اوپر رحمان کا عرش ہے (صحيح بخاری ، كتاب الجهاد، باب درجات المجاهدين في سبيل الله 5- یعنی جن کو جنت میں وہ اعلیٰ درجے نصیب ہوں گے جو مذکور ہوئے کیا وہ ایسے جہنمیوں کے برابر ہیں جن کا یہ حال ہوگا؟ ظاہر بات ہے ایسا نہیں ہوگا۔ بلکہ ایک درجات میں ہوگا اور دوسرا درکات (جہنم) میں۔ ایک نعمتوں میں داد طرب وعیش دے رہاہوگا، دوسرا عذاب جہنم کی سختیاں جھیل رہا ہوگا۔ ایک اللہ کا مہمان ہوگا جہاں انواع واقسام کی چیزیں اس کی تواضع اور اکرام کے لئے ہوں گی اور دوسرا اللہ کا قیدی، جہاں اس کو کھانے کے لئے زقوم جیسا تلخ وکسیلا کھانا اور پینے کے لئے کھولتا ہوا پانی ملے گا۔ ببی تفاوت ره از کجا است تابہ کجا