سورة الأحقاف - آیت 17

وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَّكُمَا أَتَعِدَانِنِي أَنْ أُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُونُ مِن قَبْلِي وَهُمَا يَسْتَغِيثَانِ اللَّهَ وَيْلَكَ آمِنْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَيَقُولُ مَا هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جس نے اپنے والدین سے کہا ۔ کہ میں تم سے بیزار ہوں ۔ کیا تم مجھے وعدہ دیتے ہو کہ میں قبر سے نکالا جاؤں گا اور مجھ سے پہلے اتنی امتیں گزر چکیں (اور کوئی بھی قبر سے نکلتا نہیں دیکھا ؟ ) اور اس کے والدین اللہ سے فریاد کرتے ہیں ہائے تیری خرابی ایمان لا بےشک اللہ کا وعدہ سچا ہے ۔ پھر کہتا ہے کہ یہ سب اگلوں کی کہانیاں ہیں

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- مذکورہ آیت میں سعادت مند اولاد کا تذکرہ تھا، جو ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک بھی کرتی ہے اور ان کے حق میں دعائے خیر بھی۔ اب اس کے مقابلے میں بدبخت اور نافرمان اولاد کا ذکر کیا جا رہا ہے جو ماں باپ کے ساتھ گستاخی سے پیش آتی ہے۔ ﴿أُفٍّ لَكُمَا﴾ افسوس ہے تم پر ، اف کا کلمہ، ناگواری کے اظہار کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی نافرمان اولاد، باپ کی ناصحانہ باتوں پر یا دعوت ایمان وعمل صالح پر ناگواری اور شدت غیظ کا اظہار کرتی ہے جس کی اولاد کو قطعاً اجازت نہیں ہے۔ یہ آیت عام ہے، ہر نافرمان اولاد اس کی مصداق ہے۔ 2- مطلب ہے کہ وہ تودوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں نہیں آئے۔ حالانکہ دوبارہ زندہ ہونے کا مطلب قیامت والے دن زندہ ہونا ہے جس کے بعد حساب ہوگا۔ 3- ماں باپ مسلمان ہوں اور اولاد کافر، تو وہاں اولاد اور والدین کے درمیان اسی طرح تکرار اور بحث ہوتی ہے جس کا ایک نمونہ اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔