سورة آل عمران - آیت 159

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

سو خدا کی مہربانی ہے کہ تو (اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ان کے لئے نرم دل ہوگیا اور اگر تم سخت گو اور سخت دل ہوتا تو وہ تیرے گرد سے بھاگ جاتے ، سو تو ان کو معاف (ف ٢) کر اور ان کے لئے مغفرت مانگ اور کام میں ان سے مشورہ لے ۔ (ف ٣) پھر جب تو اس بات کا قصد کرچکے تو تو خدا پر بھروسہ کر ، بےشک خدا توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ (ف ١)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- نبی (ﷺ) جو صاحب خلق عظیم تھے، اللہ تعالیٰ اپنے اس پیغمبر پر ایک احسان کا ذکر فرما رہا ہے کہ آپ (ﷺ) کے اندر جو نرمی اور ملائمت ہے یہ اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی کا نتیجہ ہے اور یہ نرمی دعوت وتبلیغ کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اگر آپ (ﷺ) کے اندر یہ نہ ہوتی بلکہ اس کے برعکس آپ (ﷺ) تند خو اور سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے قریب ہونے کے بجائے، آپ (ﷺ) سے دور بھاگتے۔ اس لئے آپ درگزر سے ہی کام لیتے رہئیے۔ 2- یعنی مسلمانوں کی طیب خاطر کے لئے مشورہ کر لیا کریں۔ اس آیت سے مشاورت کی اہمیت، افادیت اور اس کی ضرورت مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ مشاورت کا یہ حکم بعض کے نزدیک وجوب کے لئے اور بعض کے نزدیک استحباب کے لئے ہے (ابن كثير)۔ امام شوکانی لکھتے ہیں (حکمرانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ علما سے ایسے معاملات میں مشورہ کریں جن کا انہیں علم نہیں ہے۔ یا ان کے بارے میں انہیں اشکال ہیں۔ فوج کے سربراہوں سے فوجی معاملات میں، سربر آوردہ لوگوں سے عوام کے مصالح کے بارے میں اور ماتحت حکام ووالیان سے ان کے علاقوں کی ضروریات وترجیحات کے سلسلے میں مشورہ کریں۔ ابن عطیہ کہتے ہیں کہ ایسے حکمران کے وجوب پر کوئی اختلاف نہیں ہے جو اہل علم واہل دین سے مشورہ نہیں کرتا۔ یہ مشورہ صرف ان معاملات تک محدود ہوگا جن کی بابت شریعت خاموش ہے یا جن کا تعلق انتظامی امور سے ہے۔ (فتح القدير) 3- یعنی مشاورت کے بعد جس پر آپ کی رائے پختہ ہو جائے، پھر اللہ پر توکل کرکے اسے کر گزرئیے۔ اس سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ مشاورت کے بعد بھی آخری فیصلہ حکمران ہی کا ہوگا نہ کہ ارباب مشاورت یا ان کی اکثریت کا جیسا کہ جمہوریت میں ہے۔ دوسری یہ کہ سارا اعتماد وتوکل اللہ کی ذات پر ہو نہ کہ مشورہ دینے والوں کی عقل وفہم پر۔ اگلی آیت میں بھی توکل علی اللہ کی مزید تاکید ہے۔