سورة الشورى - آیت 52

وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے تیری طرف ایک روح (یعنی فرشتہ جبرائیل) بھیجی تو نہ جانتا تھا کہ کتاب اور ایمان کیا ہوتا ہے ۔ لیکن ہم نے اسے ایک نور بنایا (سو اپنے بندوں) میں سے جسے ہم چاہیں اس (کتاب) کے ذریعہ سے ہدایت کریں ۔ اور تو البتہ راہ (ف 2) راست کی طرف ہدایت کرتا ہے۔

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* رُوحٌ سے مراد قرآن ہے۔ یعنی جس طرح آپ سے پہلے اور رسولوں پر ہم وحی کرتے رہے، اسی طرح ہم نے آپ پر قرآن کی وحی کی ہے۔ قرآن کو روح سے اس لیے تعبیر کیا ہے کہ قرآن سے دلوں کو زندگی حاصل ہوتی ہے جیسے روح میں انسانی زندگی کا راز مضمر ہے۔ ** کتاب سے مراد قرآن ہے، یعنی نبوت سے پہلے قرآن کا بھی کوئی علم آپ کو نہیں تھا اور اسی طرح ایمان کی ان تفصیلات سے بھی بے خبر تھے جو شریعت میں مطلوب ہیں۔ *** یعنی قرآن کو نور بنایا، اس کے ذریعے سے اپنے بندوں میں سے ہم جسے چاہتے ہیں، ہدایت سے نواز دیتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن سے ہدایت و رہنمائی انہی کو ملتی ہے جن میں ایمان کی طلب اور تڑپ ہوتی ہے وہ اسے طلب ہدایت کی نیت سے پڑھتے، سنتے اور غور وفکر کرتے ہیں، چنانچہ اللہ ان کی مدد فرماتا ہے اور ہدایت کا راستہ ان کے لیے ہموار کر دیتا ہے جس پر وہ چل پڑتے ہیں ورنہ جو اپنی آنکھوں کو ہی بند کرلیں، کانوں میں ڈاٹ لگالیں اور عقل وفہم کو ہی بروئے کار نہ لائیں تو انہیں ہدایت کیوں کر نصیب ہوسکتی ہے، جیسے فرمایا۔ ﴿قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى أُولَئِكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ﴾ (سورۃ حمٰ السجدۃ: 44)