سورة فصلت - آیت 53

سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

عنقریب ہم ان (قریش) کو اطراف (دنیا) میں اور خود ان کی جانوں میں اپنی نشانیاں دکھلائینگے یہاں تک کہ ان پر کھل جائے گا کہ وہ (قرآن باخدا) (ف 3) حق ہے یا تیرا رب کافی نہیں کہ وہ ہر شئے پر گواہ ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- جن سے قرآن کی صداقت اور اس کا من جانب اللہ ہونا واضح ہوجائے گا۔ یعنی أَنَّهُ میں ضمیر کا مرجع قرآن ہے۔ بعض نے اس کا مرجع اسلام یا رسول اللہ (ﷺ) کو بتلایا ہے۔ مآل سب کا ایک ہی ہے۔ آفَاقٌ ، أُفُقٌ کی جمع ہے۔ کنارہ، مطلب ہے کہ ہم اپنی نشانیاں باہر کناروں میں بھی دکھائیں گے اور خود انسان کے اپنے نفسوں کے اندر بھی۔ چنانچہ آسمان و زمین کے کناروں میں بھی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں ہیں مثلاً سورج، چاند، ستارے، رات اور دن، ہوا اور بارش، گرج چمک، بجلی، کڑک، نباتات وجمادات، اشجار، پہاڑ، اور انہار وبحار وغیرہ۔ اور آیات انفس سے انسان کا وجود، جن اخلاط و مواد اور ہیئتوں پرمرکب ہے وہ مراد ہیں۔ جن کی تفصیلات طب وحکمت کا دلچسپ موضوع ہے۔ بعض کہتے ہیں، آفاق سے مراد شرق وغرب کے وہ دور دراز کے علاقے ہیں۔ جن کی فتح کو اللہ نے مسلمانوں کے لیے آسان فرما دیا اور انفس سے مراد خود عرب کی سرزمین پر مسلمانوں کی پیش قدمی ہے، جیسے جنگ بدر اور فتح مکہ وغیرہ فتوحات میں مسلمانوں کو عزت وسرفرازی عطا کی گئی۔ 2- استفہام اقراری ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے اقوال وافعال کے دیکھنے کے لیے کافی ہے، اور وہی اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جو اس کے سچے رسول حضرت محمد (ﷺ) پر نازل ہوا۔