سورة فصلت - آیت 29

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا رَبَّنَا أَرِنَا اللَّذَيْنِ أَضَلَّانَا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ أَقْدَامِنَا لِيَكُونَا مِنَ الْأَسْفَلِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور کافر کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہمیں جن اور آدمیوں میں سے وہ فریق دکھلا جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا کہ ہم ان دونوں کو اپنے پیروں کے نیچے گرائیں کہ وہ سب سے نیچے (ف 1) رہیں

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس کا مفہوم واضح ہی ہے کہ گمراہ کرنے والے شیاطین ہی نہیں ہوتے، انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی شیطان کے زیراثر لوگوں کو گمراہ کرنے میں مصروف رہتی ہے۔ تاہم بعض نے جن سے ابلیس اور انسان سے قابیل مراد لیا ہے، جس نے انسانوں میں سب سے پہلے اپنے بھائی ہابیل کوقتل کر کے ظلم اور کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا اور حدیث کے مطابق قیامت تک ہونے والے ناجائز قتلوں کے گناہ کا ایک حصہ بھی اس کو ملتا رہے گا۔ ہمارے خیال میں پہلا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔ 2- یعنی اپنے قدموں سے انہیں روندیں اور اس طرح ہم انہیں خوب ذلیل و رسوا کریں، جہنمیوں کو اپنےلیڈروں پر جو غصہ ہوگا، اس کی تشفی کےلیے وہ یہ کہیں گے۔ ورنہ دونوں ہی مجرم ہیں اور دونوں ہی یکساں جہنم کی سزا بھگتیں گے۔ جیسے دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَكِنْ لا تَعْلَمُونَ﴾ (الأعراف: 38) جہنمیوں کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا تذکرہ فرما رہا ہے، جیساکہ عام طور پر قرآن کا اندازہے تا کہ ترہیب کے ساتھ ترغیب اور ترغیب کے ساتھ ترہیب کا بھی اہتمام رہے۔ گویا انذار کے بعد اب تبشیر۔