سورة غافر - آیت 60

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور تمہارے رب نے کہا ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا ۔ بےشک جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں ۔ عنقریب ذلیل ہوکر دوزخ میں داخل ہوں گے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- گزشتہ آیت میں جب اللہ نے وقوع قیامت کا تذکرہ فرمایا، تو اب اس آیت میں ایسی رہنمائی دی جارہی ہے، جسے اختیار کر کے انسان آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہو سکے۔ اس آیت میں دعا سے اکثر مفسرین نے عبادت مراد لی ہے۔ یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ جیسا کہ حدیث میں بھی دعا کو عبادت بلکہ عبادت کا مغز قرار دیا گیا ہے۔ [ الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ ] اور [ الدَّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَةِ ] (مسند أحمد 4/271 مشكاة الدعوات) علاوہ ازیں اس کے بعد ﴿يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي کے الفاظ سے بھی واضح ہے کہ مراد عبادت ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ دعا سے مراد دعا ہی ہے یعنی اللہ سے جلب نفع اور دفع ضرر کا سوال کرنا، کیونکہ دعا کے شرعی اورحقیقی معنی مطلب کرنے کے ہیں، دوسرے مفہوم میں اس کا استعمال مجازی ہے علاوہ ازیں دعا بھی اپنے حقیقی معنی کی اعتبار سے اور حدیث مذکور کی رو سے بھی عبادت ہی ہے، کیونکہ مافوق الاسباب طریقے سےکسی سے کوئی چیز مانگنا اور اس سے سوال کرنا، یہ اس کی عبادت ہی ہے۔ (فتح القدیر) مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو طلب حاجات اور مدد کے لیے پکارنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اس طرح مافوق الاسباب طریقے سے کسی کو حاجت روائی کے لیے پکارنا اس کی عبادت ہے اور عبادت اللہ کے سوا کسی کی جائز نہیں۔ 2- یہ اللہ کی عبادت سے انکار واعراض یا اس میں دوسروں کو بھی شریک کرنے والوں کا انجام ہے۔