سورة غافر - آیت 28

وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ ۖ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ ۖ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور فرعون کے لوگوں میں سے ایک مومن شخص نے جو اپنا ایمان چھپارہا تھا یوں (ف 1) کہا ۔ کیا تم ایک آدمی کو اس پر مارے ڈالتے ہو ، جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور حالانکہ بلاشبہ رب کی طرف سے تمہارے پاس کھلی نشانیاں لے کر آیا ہے ۔ اور اگر یہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ اس پر پڑا ہے اور جو وہ سچا ہے تو کوئی وعدہ جو تم کو دیتا ہے ضرور تم پر آپڑیگا بےشک اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں کرتا ۔ جو حد سے نکلنے والا جھوٹا ہو۔

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* یعنی اللہ کی ربوبیت پر وہ ایمان یوں ہی نہیں رکھتا، بلکہ اس کے پاس اپنے اس موقف کی واضح دلیلیں ہیں۔ ** یہ اس نے بطور تنزل کے کہا، کہ اگر اس کے دلائل سے تم مطمئن نہیں اور اس کی صداقت اور اس کی دعوت کی صحت تم پر واضح نہیں ہوئی، تب بھی عقل ودانش اور احتیاط کا تقاضا ہے کہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے، اس سے تعرض نہ کیا جائے۔ اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ خود ہی اسے اس جھوٹ کی سزا دنیا وآخرت میں دے دے گا۔ اور اگر وہ سچا ہے اور تم نے اسے ایذائیں پہنچائیں تو پھر یقیناً وہ تمہیں جن عذابوں سے ڈراتا ہے، تم پران میں سے کوئی عذاب آ سکتا ہے۔ *** اس کا مطلب ہے کہ اگروہ جھوٹا ہوتا (جیساکہ تم باور کراتے ہو) تو اللہ تعالیٰ اسےدلائل و معجزات سے نہ نوازتا، جب کہ اس کے پاس یہ چیزیں موجود ہیں۔ دوسرا مطلب ہے کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ خود ہی اسے ذلیل اور ہلاک کر دے گا، تمہیں اس کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔