سورة الزمر - آیت 71

وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِ رَبِّكُمْ وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا ۚ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور کافر جہنم کی طرف گروہ (ف 2) گروہ کرکے ہانکے جائیں گے ۔ یہاں تک کہ اس کے پاس آئیں گے تو اس کے دروازے کھولے جائیں گے اور دوزخ کے داروغہ ان سے کہیں گے کیا تمہارے پاس تمہارے ہی درمیان سے رسول نہ آئے تھے کہ وہ تمہارے رب کی آیتیں تم پر پڑھتے اور تمہارے اس دن کی (ف 3) ملاقات سے نہ ڈراتے تھے ؟ بولیں گے کیوں نہیں لیکن عذاب کا حکم کافروں پر ثابت ہوا

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- زُمَرٌ زَمْرٌ سے مشتق ہے بمعنی آواز ، ہر گروہ یا جماعت میں شور اور آوازیں ضرور ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ جماعت اور گروہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، مطلب ہے کہ کافروں کو جہنم کی طرف گروہوں کی شکل میں لے جایا جائے گا، ایک گروہ کےپیچھے ایک گروہ۔ علاوہ ازیں انہیں مار دھکیل کر جانوروں کے ریوڑ کی طرح ہنکایا جائے گا۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا، ﴿يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلَى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا﴾ (الطور: 13) یعنی انہیں جہنم کی طرف سختی سے دھکیلا جائےگا۔ 2- یعنی ان کے پہنچتے ہی فوراً جہنم کے ساتوں دروازے کھول دیے جائیں گے تاکہ سزا میں تاخیر نہ ہو۔ 3- یعنی جس طرح دنیا میں بحث وتکرار اور جدل ومناظرہ کرتے تھے، وہاں سب کچھ آنکھوں کے سامنے آجانے کے بعد، بحث وجدال کی گنجائش ہی باقی نہ رہے گی، اس لیے اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں ہوگا۔ 4- یعنی ہم نے پیغمبروں کی تکذیب اورمخالفت کی، اس شقاوت کی وجہ سے جس کے ہم مستحق تھے، جب کہ ہم نے حق سے گریز کر کے باطل کو اختیار کیا، اس مضمون کو سورۃ الملک: 8-10 میں زیادہ وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔