مَثَلُ مَا يُنفِقُونَ فِي هَٰذِهِ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَثَلِ رِيحٍ فِيهَا صِرٌّ أَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ فَأَهْلَكَتْهُ ۚ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَٰكِنْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
ان کی مثال جو اس دنیوی زندگی میں (محض نفسانیت کے لئے) خرچ کرتے ہیں ‘ اس ہوا کی مثال ہے جس میں پالا ہے ۔ وہ پہنچی ان کے کھیت پر جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اس نے کھیت نیست وتابود کردیا ، اور خدا نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ اپنی جانوں پر خود ظلم کرتے ہیں (ف ١)
1- قیامت والے دن کافروں کے نہ مال کچھ کام آئیں گے نہ اولاد حتیٰ کہ رفاہی اوربظاہر بھلائی کے کاموں پر وہ جو خرچ کرتے ہیں، وہ بھی بیکار جائیں گے اور ان کی مثال اس سخت پالے کی سی ہے جو ہری بھری کھیتی کو جلا کر خاکستر کر دیتا ہے، ظالم اس کھیتی کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہوتے اور اس سے نفع کی امید رکھے ہوتے ہیں کہ اچانک ان کی امیدیں خاک میں مل جاتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب تک ایمان نہیں ہوگا۔ رفاہی کاموں پر رقم خرچ کرنے والوں کی چاہے دنیا میں کتنی ہی شہرت ہو جائے، آخرت میں انہیں ان کا کوئی صلہ نہیں ملے گا، وہاں تو ان کے لئے جہنم کا دائمی عذاب ہے۔