سورة الزمر - آیت 10

قُلْ يَا عِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۗ وَأَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ ۗ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تو کہہ اسے میرے ایماندار بندو اپنے رب سے ڈرو ۔ جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ہے ان کے لئے (ہی) نیکی ہے اور اللہ کی زمین چوڑی ہے ۔ صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر بےحساب (ف 1) ملتا ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس کی اطاعت کرکے، معاصی سے اجتناب کرکے اور عبادت واطاعت کو اس کے لئے خالص کرکے۔ 2- یہ تقویٰ کے فوائد ہیں۔ نیک بدلے سے مراد جنت اور اس کی ابدی نعمتیں ہیں۔ بعض فِي هَذِهِ الدُّنْيَا کو حَسَنَةٌ سے متعلق مان کر ترجمہ کرتے ہیں جو نیکی کرتے ہیں، ان کے لئے دنیا میں نیک بدلہ ہے یعنی اللہ انہیں دنیا میں صحت وعافیت، کامیابی اور غنیمت وغیرہ عطا فرماتا ہے۔ لیکن پہلا مفہوم ہی زیادہ صحیح ہے۔ 3- یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اگر اپنے وطن میں ایمان وتقویٰ پر عمل مشکل ہو، تو وہاں رہنا پسندیدہ نہیں، بلکہ وہاں سے ہجرت اختیار کرکے ایسے علاقے میں چلا جانا چاہئے جہاں انسان احکام الٰہی کے مطابق زندگی گزار سکے اور جہاں ایمان وتقویٰ کی راہ میں رکاوٹ نہ ہو۔ 4- اسی طرح ایمان وتقویٰ کی راہ میں مشکلات بھی ناگزیر اور شہوات ولذات نفس کی قربانی بھی لابدی ہے، جس کے لئے صبر کی ضرورت ہے۔ اس لئے صابرین کی فضیلت بھی بیان کر دی گئی ہے، کہ ان کو ان کے صبر کے بدلے میں اس طرح پورا پورا اجر دیا جائے گا کہ اسے حساب کے پیمانوں سے ناپنا ممکن ہی نہیں ہوگا۔ یعنی ان کا اجر غیر متناہی ہوگا۔ کیوں کہ جس چیز کا حساب ممکن ہو، اس کی تو ایک حد ہوتی ہے اور جس کی کوئی حد اور انتہا نہ ہو، وہ وہی ہوتی ہے جس کو شمار کرنا ممکن نہ ہو۔ صبر کی یہ وہ عظیم فضیلت ہے جو ہر مسلمان کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ اس لئے کہ جزع فزع اور بے صبری سے نازل شدہ مصیبت ٹل نہیں جاتی، جس خیر اور فائدے سے محرومی ہوگئی ہے، وہ حاصل نہیں ہو جاتا اور جو ناگوار صورت حال پیش آچکی ہوتی ہے، اس کا اندفاع ممکن نہیں۔ جب یہ بات ہے تو انسان صبر کرکے وہ اجر عظیم کیوں نہ حاصل کرے جو صابرین کے لئے اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے۔