وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَىٰ كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ
اور ہم نے سلیمان کو آزمایا اور اس کے تخت پر ایک دھڑلا ڈالا ۔ پھر سلیمان نے رجوع کیا
1- یہ آزمائش کیا تھی، کرسی پر ڈالا گیا جسم کس چیز کا تھا؟ اور اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کی بھی کوئی تفصیل قرآن کریم یا حدیث میں نہیں ملتی۔ البتہ بعض مفسرین نے صحیح حدیث سے ثابت ایک واقعے کو اس پر چسپاں کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان (عليہ السلام) نے ایک مرتبہ کہا کہ میں آج کی رات اپنی تمام بیویوں سے (جن کی تعداد 70 یا 90 تھی) ہمبستری کروں گا تاکہ ان سے شاہ سوار پیدا ہوں جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ اور اس پر ان شاء اللہ نہیں کہا (یعنی صرف اپنی ہی تدبیر پر سارا اعتماد کیا) نتیجہ یہ ہوا کہ سوائے ایک بیوی کے کوئی بیوی حاملہ نہیں ہوئی۔ اور حاملہ بیوی نے بھی جو بچہ جنا، وہ ناقص یعنی آدھا تھا۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا اگر سلیمان (عليہ السلام) ان شاء اللہ کہہ لیتے تو سب سے مجاہد پیدا ہوتے۔ (صحيح بخاری ، كتاب الأنبياء ، صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب الاستثناء) ان مفسرین کے خیال میں شاید ان شاء اللہ نہ کہنا یا صرف اپنی تدبیر پر اعتماد کرنا یہی فتنہ ہو، جس میں حضرت سلیمان (عليہ السلام) مبتلا ہوئے اور کرسی پر ڈالا جانے والا جسم یہی ناقص الخلقت بچہ ہو۔ واللهُ أَعْلَمُ۔