سورة آل عمران - آیت 103

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور تم سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو ، اور خدا کا احسان جو اس نے تم پر کیا ہے ‘ یاد کرو جبکہ تم آپس میں دشمن تھے (یعنی تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی اور اب اس کے فضل سے بھائی ہوگئے ، اور تم ایک آگ کے گڑے کے کنارہ پر تھے ، سو خدا نے تمہیں اس سے بچایا ، یوں ہی وہ اپنی آیتیں تم پر کھولتا ہے ، شاید تم ہدایت پاؤ(ف ١)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- تقویٰ کے بعد اعْتِصَام بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا ”سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں“ کا درس دے کر واضح کر دیا کہ نجات بھی انہی دو اصولوں میں ہے اور اتحاد بھی انہی پر قائم ہو سکتا اور رہ سکتا ہے۔ 2- وَلا تَفَرَّقُوا (اور پھوٹ نہ ڈالو) کے ذریعے فرقہ بندی سے روک دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مذکورہ دو اصولوں سے انحراف کرو گے تو تمہارے درمیان پھوٹ پڑ جائے گی اور تم الگ الگ فرقوں میں بٹ جاؤ گے،چنانچہ فرقہ بندی کے تاریخ دیکھ لیجئے، یہی چیز نمایاں ہو کر سامنے آئے گی، قرآن وحدیث کے فہم اور اس کی توضیح وتعبیر میں کچھ باہم اختلاف، فرقہ بندی کا سبب نہیں ہے۔ یہ اختلاف تو صحابہ کرام (رضی الله عنہم) وتابعین کے عہد میں بھی تھا لیکن مسلمان فرقوں اور گروہوں میں تقسیم نہیں ہوئے۔ کیونکہ اس اختلاف کے باوجود سب کا مرکز اطاعت اور محور عقیدت ایک ہی تھا قرآن اور حدیث رسول (ﷺ) لیکن جب شخصیات کے نام پر دبستان فکر معرض وجود میں آئے تو اطاعت وعقیدت کے یہ مرکز ومحور تبدیل ہوگئے۔ اپنی اپنی شخصیات اور ان کے اقوال وافکاراولین حیثیت کے اور اللہ رسول اور ان کے فرمودات ثانوی حیثیت کے حامل قرار پائے۔ اور یہیں سے امت مسلمہ کے افتراق کے المیئے کا آغاز ہوا جو دن بدن بڑھتا ہی چلاگیا اورنہایت مستحکم ہوگیا۔