إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَّن تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الضَّالُّونَ
جو لوگ ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے ، کفر ہی میں بڑھتے رہے ، ان کی توبہ ہرگز قبول نہ ہوگی ، اور وہی گمراہ (ف ١) ہیں ۔
1- اس آیت میں ان کی سزا بیان کی جا رہی ہے جو مرتد ہونے کے بعد توبہ کی توفیق سے محروم رہیں اور کفر پر ان کا انتقال ہو۔ 2- اس سے وہ توبہ مراد ہے جو موت کے وقت ہو۔ ورنہ توبہ کا دروازہ تو ہر ایک کے لئے ہر وقت کھلا ہے۔ اس سے پہلی آیت میں بھی قبولیت توبہ کا اثبات ہے۔ علاوہ ازیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بار بار توبہ کی اہمیت اور قبولیت کوبیان فرمایا ہے ﴿وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ﴾ (الشوریٰ: 25)۔ ﴿أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ﴾ (التوبہ:104)۔ ”کیا انہوں نے نہیں جانا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے“، اور احادیث میں بھی یہ مضمون بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے۔ اس لئے اس آیت سے مراد آخری سانس کی توبہ ہے جو نامقبول ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم کے ایک اور مقام پر ہے ﴿وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الآنَ﴾ (النساء:18)۔ ”ان کی توبہ (قبول) نہیں ہے جو برائی کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے ایک کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے میری توبہ“۔ حدیث میں بھی ہے [ إنَّ اللهَ يَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعبْدِ مَا لَمْ يُغَرْغِرْ ] (مسنداحمد،ترمذی،بحوالہ فیض القدیر شرح الجامع الصغیر) ”اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتاہے جب تک اسے موت کا اچھو نہ لگے“، یعنی جان کنی کے وقت کی توبہ قبول نہیں۔