سورة البقرة - آیت 30

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک نائب (خلیفہ) بنانے والا ہوں ۔ (ف ١) تو بولے ، کیا تو اس میں اس شخص کو رکھے گا جو وہاں فساد ڈالے اور خون بہائے اور ہم تیری خوبیاں پڑھتے اور پاکی بیان کرتے ہیں ، فرمایا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۔ (ف ٢) ،

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1-مَلائِكَةٌ (فرشتے) اللہ کی نوری مخلوق ہیں، جن کا مسکن آسمان ہے، جو اوامرالٰہی کے بجالانے اور اس کی تحمید وتقدیس میں مصروف رہتے ہیں اور اس کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کرتے۔ 2- خَلِيفَةٌ سے مراد ایسی قوم ہے جو ایک دوسرے کے بعد آئے گی اور یہ کہنا کہ انسان اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ اور نائب ہے غلط ہے۔ 3- فرشتوں کا یہ کہنا حسد یا اعتراض کے طور پر نہیں تھا، بلکہ اس کی حقیقت اور حکمت معلوم کرنے کی غرض سے تھا کہ اے رب اس مخلوق کے پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے، جب کہ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو فساد پھیلائیں گے اور خون ریزی کریں گے؟ اگر مقصود یہ ہے کہ تیری عبادت ہو تو اس کام کے لئے ہم تو موجود ہیں، ہم سے وہ خطرات بھی نہیں جو نئی مخلوق سے متوقع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”میں وہ مصلحت راجحہ جانتا ہوں جس کی بنا پر ان ذکر کردہ مفاسد کے باوجود میں اسے پیدا کر رہا ہوں، جو تم نہیں جانتے۔“ کیوں کہ ان میں انبیا، شہدا، وصالحین اور زہاد بھی ہوں گے۔ (ابن کثیر) ذریت آدم کی بابت فرشتوں کو کیسے علم ہوا کہ وہ فساد برپا کرے گی؟ اس کا اندازہ انہوں نے انسانی مخلوق سے پہلے کی مخلوق کے اعمال یا کسی اور طریقے سے کرلیا ہوگا۔ بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی بتلا دیا تھا کہ وہ ایسے ایسے کام بھی کرے گی۔ یوں وہ کلام میں حذف مانتے ہیں کہ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً يَفْعَلُ كَذَا وَكَذَا (فتح القدیر)