سورة السجدة - آیت 3

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۚ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

کیا وہ کہتے ہیں ! کہ اس کو وہ باندھ لایا ۔ کوئی نہیں بلکہ وہ تو تیرے رب کی طرف سے حق ہے تاکہ تو اس قوم (عرب) کو ڈرائے جن کے پاس تجھ سے (ف 1) پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا ۔ شاید وہ راہ پائیں۔

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* یہ بطور توبیخ ہے کہ کیا رب العالمین کے نازل کردہ اس کلام بلاغت نظام کی بابت یہ کہتے ہیں کہ اسے خود (محمد ﷺ نے) گھڑ لیا ہے؟ ** یہ نزول قرآن کی علت ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوا (جیسا کہ پہلے بھی وضاحت گزر چکی ہے) کہ عربوں میں نبی (ﷺ) پہلے نبی تھے۔ بعض لوگوں نے حضرت شعیب (عليہ السلام) کو بھی عربوں میں مبعوث نبی قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم۔ اس اعتبار سے قوم سے مراد پھر خاص قریش ہوں گے جن کی طرف کوئی نبی آپ (ﷺ) سے پہلے نہیں آیا۔