سورة لقمان - آیت 34

إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بے شک اللہ ہی ہے جس کو قیامت کا علم ہے اور وہی مینہ برساتا ہے او جو ماں کے پیٹ میں ہے وہ جانتا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے (ف 3) گا ۔ بےشک اللہ ہی جاننے والا خبردار ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- حدیث میں بھی آتا ہے کہ ”پانچ چیزیں مفاتیح الغیب ہیں، جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا“۔ (صحيح بخاری، تفسير سورة لقمان وكتاب الاستسقاء باب لا يدري متى يجيء المطر إلا لله) 1 قرب قیامت کی علامت تو نبی (ﷺ) نے بیان فرمائی ہے لیکن قیامت کے وقوع کا یقینی علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، کسی فرشتے کو، نہ کسی نبی مرسل کو۔ 2 بارش کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ آثار وعلائم سے تخمینہ تو لگایا جاتا اور لگایا جا سکتا ہے لیکن یہ بات ہر شخص کے تجربہ ومشاہدے کا حصہ ہے کہ یہ تخمینے کبھی صحیح نکلتے ہیں اور کبھی غلط۔ حتیٰ کہ محکمہ موسمیات کے اعلانات بھی بعض دفعہ صحیح ثابت نہیں ہوتے۔ جس سے صاف واضح ہے کہ بارش کا بھی یقینی علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ 3 رحم مادر میں مشینی ذرائع سے جنسیت کا ناقص اندازہ تو شاید ممکن ہے کہ بچہ ہے یابچی؟ لیکن ماں کے پیٹ، میں نشوونما پانے والا یہ بچہ نیک بخت ہے یا بدبخت ناقص ہوگا یا کامل۔ خوب رو ہوگا کہ بدشکل، کالا ہوگا یا گورا، وغیرہ باتوں کا علم اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں۔ 4 انسان کل کیا کرے گا؟ وہ دین کا معاملہ ہو یا دنیا کا؟ کسی کو آنے والے کل کے بارے میں علم نہیں ہے کہ وہ اس کی زندگی میں آئے گا بھی یا نہیں؟ اور اگر آئے گا تووہ اس میں کیا کچھ کرے گا؟ 5 موت کہاں آئے گی؟ گھر میں یا گھر سے باہر، اپنے وطن میں یا دیار غیر میں، جوانی میں آئے گی یا بڑھاپے میں، اپنی آرزوؤں اور خواہشات کی تکمیل کے بعد آئے گی یا اس سے پہلے؟ کسی کومعلوم نہیں۔