إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ
اور جب فرشتوں نے کہا ۔ اے مریم علیہا السلام ! اللہ تجھے خوشخبری سناتا ہے اپنے ایک حکم کی (ف ٣) جس کا نرم مسیح (علیہ السلام) ہے ، عیسیٰ (علیہ السلام) بیٹا مریم علیہا السلام کا ، دنیا اور آخرت میں مرتبہ والا اور آخرت کے مقربوں میں (ف ٤) سے ۔
1- حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو کلمہ یعنی کلمۃ اللہ اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ ان کی ولادت اعجازی شان کی مظہر اور عام انسانی اصول کے برعکس، باپ کے بغیر، اللہ کی خاص قدرت اوراسکے کلمہ کن کی تخلیق ہے۔ 2- مَسِيحٌ مسح سے ہےأي: مَسَحَ الأَرْضَ یعنی کثرت سے زمین کی سیاحت کرنے والا، یا اس کے معنی ہاتھ پھیرنے والا ہے، کیونکہ آپ ہاتھ پھیر کر مریضوں کو باذن اللہ شفایاب فرماتے تھے۔ ان دونوں معنوں کے اعتبار سے یہ فَعِيلٌ بمعنی فاعل ہے اور قیامت کے قریب ظاہر ہونے والے دجال کو جو مسیح کہا جاتا ہے وہ یا تو بمعنی مفعول یعنی مَمْسُوحُ الْعَينِ ( اس کی ایک آنکھ کانی ہوگی) کے اعتبار سے ہے یا وہ بھی چونکہ کثرت سے دنیا میں پھرے گا اور مکہ اور مدینہ کے سوا ہر جگہ پہنچے گا، (بخاری ومسلم) اور بعض روایات میں بیت المقدس کا بھی ذکر ہے اس لئے اسے بھی الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ کہا جاتا ہے۔ عام اہل تفسیر نے عموماً یہی بات درج کی ہے۔ کچھ اور محققین کہتے ہیں کہ مسیح یہود ونصاریٰ کی اصطلاح میں بڑے مامور من اللہ پیغمبر کو کہتے ہیں، یعنی ان کی یہ اصطلاح تقریباً اولوالعزم پیغمبر کے ہم معنی ہے۔ دجال کو مسیح اس لئے کہا گیا ہے کہ یہود کو جس انقلاب آفریں مسیح کی بشارت دی گئی ہے۔ اور جس کے وہ غلط طور پر اب بھی منتظر ہیں، دجال اسی مسیح کے نام پر آئے گا یعنی اپنے آپ کو وہی مسیح قرار دے گا۔ مگر وہ اپنے اس دعویٰ سمیت تمام دعوؤں میں دجل وفریب کا اتنا بڑا پیکر ہوگا کہ اولین وآخرین میں اس کی کوئی مثال نہ ہوگی اس لئے وہ الدجال کہلائے گا۔ اور عیسیٰ عجمی زبان کا لفظ ہے۔ بعض کے نزدیک یہ عربی اورعَاسَ يَعُوسُ سے مشتق ہے جس کے معنی سیاست وقیادت کے ہیں (قرطبی وفتح القدیر)