سورة البقرة - آیت 26

إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بیشک خدا مچھر کی یا اس سے اوپر شئے کی مثال بیان کرنے سے نہیں شرماتا ۔ پھر وہ جو ایمان دار ہیں جانتے ہیں کہ وہ انکے رب کی طرف سے ٹھیک ہے ۔ لیکن جو کافر ہیں سو کہتے ہیں کہ اللہ کو ایسی مثال کی کیا غرض تھی ؟ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا اور بہتیروں کو اس سے ہدایت کرتا ہے اور صرف فاسق (بدکار نافرمان) لوگوں کو ہی اس سے گمراہ کرتا ہے (ف ١)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1-جب اللہ تعالیٰ نے دلائل قاطعہ سے قرآن کا معجزہ ہونا ثابت کردیا تو کفار نے ایک دوسرے طریقے سے معارضہ کردیا اور وہ یہ کہ اگر یہ کلام الٰہی ہوتا تو اتنی عظیم ذات کے نازل کردہ کلام میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کی مثالیں نہ ہوتیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ بات کی توضیح اور کسی حکمت بالغہ کے پیش نظر تمثیلات کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس لئے اس میں حیا وحجاب بھی نہیں۔ فَوْقَهَا جو مچھر کے اوپر ہو، یعنی پر یا بازو، مراد اس مچھر سے بھی حقیر تر چیز۔ یا فَوْقُ کے معنی، اس سے بڑھ کر بھی ہوسکتے ہیں۔ اس صورت میں معنی (مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز) کے ہوں گے۔ لفظ فَوْقَهَا میں دونوں مفہوم کی گنجائش ہے۔ 2- اللہ کی بیان کردہ مثالوں سے اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ اور اہل کفر کے کفر میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ سب اللہ کے قانون قدرت ومشیت کے تحت ہی ہوتا ہے۔ جسے قرآن نے ﴿نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى﴾ [النساء: 115]. ”جس طرف کوئی پھرتا ہے، ہم اسی طرف اس کو پھیر دیتے ہیں“ اور حدیث میں: [ كُلٌّ مُيَسَّرٌ لِّمَا خُلِقَ لَهُ ] (صحیح بخاری، تفسیر سورۂ اللیل) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ فسق، اطاعت الٰہی سے خروج کو کہتے ہیں، جس کا ارتکاب عارضی اور وقتی طور پر ایک مومن سے بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اس آیت میں فسق سے مراد اطاعت سے کلی خروج یعنی کفر ہے۔ جیسا کہ اگلی آیت سے واضح ہے کہ اس میں مومن کے مقابلے میں کافروں والی صفات کا تذکرہ ہے۔