سورة آل عمران - آیت 39

فَنَادَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ أَنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَىٰ مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللَّهِ وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پھر جب زکریا (علیہ السلام) محراب میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا ، فرشتوں نے اسے آواز دے کر کہا کہ اللہ تجھے خوشخبری دیتا ہے یحیٰ کی جو خدا کے ایک حکم (یعنی عیسیٰ ) کا ماننے والا اور دوسرا ہوگا اور عورت پاس نہ جائے گا اور نبی ہوگا نیکوں میں سے (ف ١)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- بے موسمی پھل دیکھ کر حضرت زکریا (عليه السلام) کے دل میں بھی (بڑھاپے اور بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود) یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش اللہ تعالیٰ انہیں بھی اسی طرح اولاد سے نواز دے۔ چنانچہ بے اختیار دعا کے لئےہاتھ بارگاہ الٰہی میں اٹھ گئے،جسے اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت سے نوازا۔ 2- اللہ کے کلمے کی تصدیق سے مراد حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کی تصدیق ہے۔ گویا حضرت یحییٰ، حضرت عیسی علیہما السلام سے بڑے ہوئے۔ دونوں آپس میں خالہ زاد تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے کی تائید کی۔ سیداً کے معنی ہیں سردار حصوراً کے معنی ہیں، گناہوں سے پاک یعنی گناہوں کے قریب نہیں پھٹکتے گویا کہ ان کو ان سے روک دیا گیا ہے۔ یعنی حَصُورٌبمعنی مَحْصُورٌ، بعض نے اس کے معنی نامرد کے کئے ہیں۔ لیکن یہ صحیح نہیں، کیونکہ یہ ایک عیب ہے جب کہ یہاں ان کا ذکر مدح اور فضیلت کے طور پر کیا گیا ہے۔