قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
تو کہہ کہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو میرے تابع ہوجاؤ اللہ تم سے محبت رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا ، اور اللہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے (ف ١)
1- یہود اور نصاریٰ دونوں کا دعویٰ تھا کہ ہمیں اللہ سے اور اللہ تعالیٰ کو ہم سے محبت ہے، بالخصوص عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ومریم علیھما السلام کی تعظیم ومحبت میں جو اتنا غلو کیا کہ انہیں درجۂ الوہیت پر فائز کر دیا، اس کی بابت بھی ان کا خیال تھا کہ ہم اس طرح اللہ کا قرب اور اس کی رضا ومحبت چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے دعوؤں اور خود ساختہ طریقوں سے اللہ کی محبت اور اس کی رضا حاصل نہیں ہو سکتی۔ اسکا تو صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ میرے آخری پیغمبر پر ایمان لاؤ اور اس کا اتباع کرو۔ اس آیت نے تمام دعوے داران محبت کے لئے ایک کسوٹی اور معیار مہیا کر دیا ہے کہ محبت الٰہی کا طالب اگر اتباع محمد (ﷺ) کے ذریعے سے یہ مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے، تو پھر تو یقیناً وہ کامیاب ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے، ورنہ وہ جھوٹا بھی ہے اور اس مقصد کے حصول میں ناکام بھی رہے گا۔ نبی (ﷺ) کا بھی فرمان ہے[ مَنْ عَمِلَ عَمَلا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدُّ ] (متفق علیہ) جس نے ایسا کام کیا جس پر ہمارا معاملہ نہیں ہے یعنی ہمارے بتلائے ہوئے طریقے سے مختلف ہے تو وہ مسترد ہے۔ 2- یعنی اتباع رسول (ﷺ) کی وجہ سے تمہارے گناہ ہی معاف نہیں ہوں گے بلکہ تم محب سے محبوب بن جاؤ گے۔ اور یہ کتنا اونچا مقام ہے کہ بارگاہ الٰہی میں ایک انسان کو محبوبیت کا مقام مل جائے۔