سورة النور - آیت 63

لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اپنے درمیان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بلانا ، ایسا نہ ٹھہراؤ جیسے تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو ، اللہ انہیں جانتا ہے جو تم میں سے نظر بچا کر کھسک جاتے ہیں ، سو جو لوگ اس کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ، چاہئے کہ ڈریں کہ ان پر کوئی آفت نہ آجائے ، یا انہیں دکھ دینے والا عذاب پہنچے (ف ١) ۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ جس طرح تم ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو، رسول اللہ (ﷺ) کو اس طرح مت پکارو۔ مثلاً یا محمد (ﷺ) نہیں بلکہ یا رسول اللہ، یا نبی اللہ وغیرہ کہو۔ (یہ آپ کی زندگی کے لئے تھا جب کہ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کو ضرورت پیش آتی تھی کہ آپ سے مخاطب ہوں) دوسرے معنی یہ ہیں کہ رسول کی بددعا کو دوسروں کی بد دعا کی طرح مت سمجھو، اس لئے کہ آپ کی دعا تو قبول ہوتی ہے۔ اس لئے نبی کی بددعا مت لو، تم ہلاک ہوجاؤ گے۔ 2- یہ منافقین کا رویہ ہوتا تھا کہ اجتماع مشاورت سے چپکے سے کھسک جاتے۔ 3- اس آفت سے مراد دلوں کی وہ کجی ہے جو انسان کو ایمان سے محروم کردیتی ہے۔ یہ نبی کریم (ﷺ) کے احکام سے سرتابی اور ان کی مخالفت کرنے کا نتیجہ ہے۔ اور ایمان سے محرومی اور کفر پر خاتمہ، جہنم کے دائمی عذاب کا باعث ہے۔ جیسا کہ آیت کے اگلے جملے میں فرمایا۔ پس نبی کریم (ﷺ) کے منہاج، طریقے اور سنت کو ہر وقت سامنے رکھنا چاہیئے۔ اس لئے جو اقوال واعمال اس کےمطابق ہوں گے، وہی بارگاہ الٰہی میں مقبول اور دوسرے سب مردود ہوں گے۔ آپ (ﷺ) کا فرمان ہے [ مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ ] (البخاری- كتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا على صلح جور- ومسلم، كتاب الأقضية، باب نقض الأحكام الباطلة ورد محدثات الأمور- والسنن) ”جس نے ایسا کام کیا، جو ہمارے طریقے پر نہیں ہے، وہ مردود ہے“۔