يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ ۖ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُم مَّشَوْا فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھیں اچک لے جس وقت ان پر چمکتی ہے تو وہ اس میں چلتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑے رہتے ہیں اور اگر خدا چاہے تو ان کے کانوں اور آنکھوں کے لے جائے ، بیشک خدا ہر شے پر قادر (ف ١) ہے ۔
1-یہ منافقین کے ایک دوسرے گروہ کا ذکر ہے جس پر کبھی حق واضح ہوتا ہے اور کبھی اس کی بابت وہ ریب وشک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ پس ان کے دل ریب وتردد میں اس بارش کی طرح ہیں جو اندھیروں (شکوک، کفر اور نفاق) میں اترتی ہے، گرج چمک سے ان کے دل ڈر ڈر جاتے ہیں، حتیٰ کہ خوف کے مارے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں۔ لیکن یہ تدبیریں اور یہ خوف ودہشت انہیں اللہ کی گرفت سے نہیں بچا سکے گا، کیوں کہ وہ اللہ کے گھیرے سے نہیں نکل سکتے۔ کبھی حق کی کرنیں ان پر پڑتی ہیں تو حق کی طرف جھک پڑتے ہیں، لیکن پھر جب اسلام یا مسلمانوں پر مشکلات کا دور آتا ہے تو پھر حیران وسرگردان کھڑے ہوجاتے ہیں۔ (ابن کثیر) منافقین کا یہ گروہ آخر وقت تک تذبذب اور گومگو کا شکار اور قبول حق (اسلام) سے محروم رہتا ہے۔ 2- اس میں اس امر کی تنبیہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ اپنی دی ہوئی صلاحیتوں کو سلب کرلے۔ اس لئے انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے گریزاں اور اس کے عذاب اور مواخذے سے کبھی بےخوف نہیں ہونا چاہیے۔