وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْآخِرَةِ وَأَتْرَفْنَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا مَا هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ
اور اس کی قوم کے شریفوں نے جو کافر تھے اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلاتے تھے اور دنیا کی زندگی میں ہم نے انہیں آسودہ کیا تھا ، کہا کہ یہ رسول تو تمہاری ہی مانند ایک بشر ہے ، جو تم کھاتے ہو ، وہی یہ کھاتا ہے ‘ اور تم پیتے ہو ‘ وہی یہ پیتا ہے ۔
1- یہ سرداران قوم ہی ہر دور میں انبیاء و رسل اور اہل حق کی تکذیب میں سرگرم رہے ہیں، جس کی وجہ سے قوم کی اکثریت ایمان لانے سے محروم رہتی۔ کیونکہ یہ نہایت با اثر لوگ ہوتے تھے، قوم انہیں کے پیچھے چلنے والی ہوتی تھی۔ 2- یعنی عقیدہ آخرت پر عدم ایمان اور دنیاوی آسائشوں کی فروانی، یہ دو بنیادی سبب تھے، اپنے رسول پر ایمان نہ لانے کے۔ آج بھی باطل انہیں اسباب کی بنا پر اہل حق کی مخالفت اور دعوت حق سے گریز کرتے ہیں۔ 3- چنانچہ انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ تو ہماری ہی طرح کھاتا پیتا ہے۔ یہ اللہ کا رسول کس طرح ہو سکتا ہے؟جیسے آج بھی بہت سے مدعیان اسلام کے لیے رسول کی بشریت کا تسلیم کرنا نہایت گراں ہے۔