يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ ۚ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ۖ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِن بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا ۚ وَتَرَى الْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ
لوگو ! اگر جی اٹھنے کے بارہ میں تمہیں شک ہے ، تو ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ، پھر نطفہ سے ، پھر (خون کی) پھٹکی سے ، پھر نقشہ بنی اور غیر نقشہ بنی بوٹی سے ، تاکہ ہم تمہارے لئے بیان کریں ، اور رحموں میں جو ہم چاہیں ایک وقت مقررہ تک ٹھہرا رکھتے ہیں ، پھر ہم تمہیں بچہ نکال دیتے ہیں پھر تاکہ تم اپنی جوانی کے زور کو پہنچو اور بعض تم میں سے وہ ہیں جو مرجاتے ہیں اور کوئی تم میں وہ ہے جو نکمی عمر تک پہنچایا جاتا ہے تاکہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے ، اور تو زمین کو خشک دیکھتا ہے ، پھر جب ہم اس پر پانی نازل کرتے تو لہلہانے اور ابھرنے لگتی ہے اور قسم قسم کی نفیس چیزیں اگاتی ہیں ۔
1- یعنی نطفے (قطرہ منی) سے چالیس روز بعد عَلَقَۃ گاڑھا خون اور عَلَقَۃ سے مُضْغَۃ گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے مُخَلَّقَۃ سے، وہ بچہ مراد ہے جس کی پیدائش واضح اور شکل و صورت نمایاں ہو جائے، ایسے بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے اور تکمیل کے بعد اس کی ولادت ہوجاتی ہے اور غیر مخلقۃ، اس کے برعکس، جس کی شکل و صورت واضح نہ ہو، نہ اس میں روح پھونکی جائے اور قبل از وقت ہی وہ ساقط ہو جائے۔ صحیح حدیث میں بھی رحم مادر کی ان کیفیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثلا ایک حدیث میں ہے کہ نطفہ چالیس دن کے بعد علقۃ (گاڑھا خون) بن جاتا ہے پھر چالیس دن کے بعد یہ مضغۃ (لوتھڑا یا گوشت کی بوٹی) کی شکل اختیار کر لیتا ہے پھر اللہ تعالٰی کی طرف سے ایک فرشتہ آتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے یعنی چار مہینے کے بعد نفخ روح ہوتا ہے اور بچہ ایک واضح شکل میں ڈھل جاتا ہے (صحيح بخاری كتاب الأنبياء وكتاب القدر، مسلم كتاب القدر ، باب كيفية الخلق الآدميٍ) 2- یعنی اس طرح ہم اپنا کمال قدرت و تخلیق تمہارے لئے بیان کرتے ہیں۔ 3- یعنی جس کو ساقط کرنا نہیں ہوتا۔ 4- یعنی عمر اشد سے پہلے ہی۔ عمر اشد سے مراد بلوغت یا کمال عقل وکمال قوت وتمیز کی عمر، جو 30 سے 40 سال کے درمیان عمر ہے۔ 5- اس سے مراد بڑھاپے میں قوائے انسانی میں ضعف و کمزوری کے ساتھ عقل و حافظہ کا کمزور ہو جانا اور یاداشت اور عقل و فہم میں بچے کی طرح ہو جانا، جسے سورہ یٰسین میں ﴿وَمَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ﴾ (یس:68) اور سورہ تین میں ﴿ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ﴾(التین:5) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ 6- یہ احیائے موتی (مردوں کے زندہ کرنے) پر اللہ تعالٰی کے قادر ہونے کی دوسری دلیل ہے۔ پہلی دلیل، جو مذکورہ ہوئی، یہ تھی کہ جو ذات ایک حقیر قطرہ پانی سے اس طرح ایک انسانی پیکر تراش سکتا ہے اور ایک حسین وجود عطا کر سکتا ہے، علاوہ ازیں وہ اسے مختلف مراحل سے گزارتا ہوا بڑھاپے کے ایسے اسٹیج پر پہنچا سکتا ہے جہاں اس کے جسم سے لے کر اس کی ذہنی و دماغی صلاحیتیں تک، سب ضعف و انحطاط کا شکار ہوجائیں۔ کیا اس کے لئے اسے دوبارہ زندگی عطا کر دینا مشکل ہے؟ یقینا جو ذات انسان کو ان مراحل سے گزار سکتی ہے، وہی ذات مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرکے ایک نیا قالب اور نیا وجود بخش سکتی ہے دوسری دلیل یہ دی ہے کہ دیکھو زمین بنجر اور مردہ ہوتی ہے لیکن اسے بارش کے بعد یہ کس طرح زندہ اور شاداب اور انواع و اقسام کے غلے، میوہ جات اور رنگ برنگ کے پھولوں سے مالا مال ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالٰی قیامت والے دن انسانوں کو بھی ان کی قبروں سے اٹھا کر کھڑا کرے گا۔ جس طرح حدیث میں ہے ایک صحابی (رضی الله عنہ) نے پوچھا کہ اللہ تعالٰی انسانوں کو جس طرح پیدا فرمائے گا اس کی کوئی نشانی مخلوقات میں سے بیان فرمائیے نبی (ﷺ) نے فرمایا کیا تمہارا گزر ایسی وادی سے ہوا ہے جو خشک اور بنجر ہو پھر دوبارہ اسے لہلہاتا ہوا دیکھا ہو؟ اس نے کہا ہاں آپ (ﷺ) نے فرمایا بس اسی طرح انسانوں کا جی اٹھنا ہوگا۔ (مسند احمد جلد 4، ص11 ابن ماجہ المقدمہ، حدیث نمبر 180)