وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ ۖ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
اور تجھ سے پہلے جو ہم نے بھیجے وہ بھی آدمی ہی تھے ان پر ہم وحی بھیجتے تھے ، سو اگر تم نہیں جانتے تو یاد رکھنے والوں (یعنی اہل کتاب) سے پوچھ لو (ف ١) ۔
1- یعنی تمام نبی مرد انسان تھے، نہ کوئی غیر انسان کبھی نبی آیا اور نہ غیر مرد، گویا نبوت انسانوں کے ساتھ اور انسانوں میں بھی مردوں کے ساتھ ہی خاص رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی عورت نبی نہیں بنی۔ اس لئے نبوت بھی ان کے فرائض میں سے ہے جو عورت کو طبعی اور فطری دائرہ عمل سے خارج ہے۔ 2- أَهْلَ الذِّكْرِ (اہل علم) سے مراد اہل کتاب ہیں، جو سابقہ آسمانی کتابوں کا علم رکھتے تھے، ان سے پوچھ لو کہ پچھلے انبیاء جو بھی گزرے ہیں، وہ انسان تھے یا غیر انسان؟ وہ تمہیں بتلائیں گے کہ تمام انبیاء انسان ہی تھے۔ اس سے بعض حضرات ”تقلید“ کا اثبات کرتے ہیں، جو غلط ہے۔ ”تقلید“ یہ ہے کہ ایک معین شخص، اور اس کی طرف منسوب ایک معین فقہ کو مرجع بنایا جائے اور اسی پر عمل کیا جائے۔ دوسرا، یہ کہ بغیر دلیل کے اس بات کو تسلیم کیا جائے جب کہ آیت میں اہل الذکر سے مراد کوئی متعین شخص نہیں ہے۔ بلکہ ہر وہ عالم ہے جو تورات و انجیل کا علم رکھتا تھا۔ اس سے تو تقلید شخصی کی نفی ہوتی ہے۔ اس میں تو علماء کی طرف رجوع کرنے کی تاکید ہے، جو عوام کے لئے ناگزیر ہے، جس سے کسی کو مجال انکار نہیں ہے۔ نہ کہ کسی ایک ہی شخصیت کا دامن پکڑ لینے کا حکم ۔ علاوہ ازیں تورات و انجیل، منصوص کتابیں تھیں یا انسانوں کی خود ساختہ فقہیں؟ اگر وہ آسمانی کتابیں تھیں تو مطلب یہ ہوا کہ علماء کے ذریعے سے نصوص شریعت معلوم کریں، جو آیت کا صحیح مفہوم ہے۔