فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۗ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَىٰ ۖ قُلْ إِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ ۖ وَإِن تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی یتیموں (ف ٢) کی بابت تجھ سے پوچھتے ہیں تو کہہ ان کا سنوارنا بہتر ہے اور اگر تم ان کا خرچ اپنے میں ملا رکھو تو وہ تمہارے بھائی ہیں اور خدا خرابی کرنے والے اور سنوارنے والے کو جانتا ہے اور اگر اللہ چاہتا تم پر مشکل ڈال دیتا ، بیشک اللہ زبردست حکمت والا ہے ۔
* جب یتیموں کا مال ظلما کھانے والوں کے لئے وعید نازل ہوئی تو صحابہ کرام (رضي الله عنه) ڈر گئے اور یتیموں کی ہر چیز الگ کردی حتیٰ کہ کھانے پینے کی کوئی چیز بچ جاتی، تو اسے بھی استعمال نہ کرتے اور وہ خراب ہوجاتی، اس ڈر سے کہ کہیں ہم بھی اس وعید کے مستحق نہ قرار پاجائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر ) ** یعنی تمہیں بغرض اصلاح وبہتری بھی، ان کا مال اپنے مال میں ملانے کی اجازت نہ دیتا۔