سورة مريم - آیت 8

قَالَ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بولا ، اے رب میرے لڑکا کیونکر ہوگا ، حالانکہ میری عورت بانجھ ہے اور میں بوڑھا ہوگیا یہاں تک کہ اکڑ گیا (یعنی سوکھ گیا)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- عَاقِرٌ اس عورت کو بھی کہتے ہیں جو بڑھاپے کی وجہ سے اولاد جننے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہو اور اس کو بھی کہتے ہیں جو شروع سے ہی بانجھ ہو۔ یہاں یہ دوسرے معنی میں ہی ہے۔ جو لکڑی سوکھ جائے، اسے عِتِيًّا کہتے ہیں۔ مراد بڑھاپے کا آخری درجہ ہے جس میں ہڈیاں اکڑ جاتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ میری بیوی تو جوانی سے ہی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کے آخری درجے پر پہنچ چکا ہوں، اب اولاد کیسے ممکن ہے؟ کہا جاتا ہے کہ حضرت زکریا (عليہ السلام) کی اہلیہ کا نام اشاع بنت فاقود بن میل ہے یہ حضرت حنہ (والدہ مریم) کی بہن ہیں۔ لیکن زیادہ قول صحیح یہ لگتا ہے کہ اشاع بھی حضرت عمران کی دختر ہیں جو حضرت مریم کے والد تھے۔ یوں حضرت یٰحیٰی (عليہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ حدیث صحیح سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے (فتح القدیر)