سورة البقرة - آیت 214

أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم ۖ مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللَّهِ ۗ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

کیا تم (مسلمان) خیال کرتے ہو کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے ، حالانکہ ابھی تک تم پر ان کے حالات نہیں آئے جو تم سے پہلے ہوچکے ہیں کہ انہیں سختیوں اور تکلیفوں نے پکڑا تھا اور وہ ہلائے گئے تھے ، یہاں تک کہ ان کا رسول (علیہ السلام) اور اس کی ایماندار ساتھی کہتے تھے کہ خدا کی مدد کب آئے گی ، سنو اللہ کی مدد نزدیک ہے۔(ف ١)

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* ہجرت مدینہ کے بعد جب مسلمانوں کو یہودیوں، منافقوں اور مشرکین عرب سے مختلف قسم کی ایذائیں اور تکلیفیں پہنچیں تو بعض مسلمانوں نے نبی (ﷺ) سے شکایت کی، جس پر مسلمانوں کی تسلی کے لئے یہ آیت بھی نازل ہوئی اور خود نبی (ﷺ) نے فرمایا ( تم سے پہلے لوگوں کو ان کے سر سے لے کر پیروں تک آرے سے چیرا گیا اور لوہے کی کنگھی سے ان کے گوشت پوست کو نوچا گیا، لیکن یہ ظلم وتشدد ان کو ان کی دین سے نہیں پھیر سکا )، پھر فرمایا: ( اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ اس معاملے کو مکمل (یعنی اسلام کو غالب) فرمائے گا۔ یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک تنہا سفر کرے گا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوگا )۔ الحدیث (صحيح بخاري، كتاب الإكراه، باب من اختار الضرب والقتل والهوان على الكفر) مقصد نبی (ﷺ) کا مسلمانوں کے اندر حوصلہ اور استقامت کا عزم پیدا کرنا تھا۔ ** اس لئے ( كُلُّ مَا هُوَ آتٍ فَهَوَ قَرِيبٌ )۔ ”ہر آنے والی چیز، قریب ہے“ اور اہل ایمان کے لئے اللہ کی مدد یقینی ہے، اس لئے وہ قریب ہی ہے۔