وَجَعَلْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا ۚ وَإِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْآنِ وَحْدَهُ وَلَّوْا عَلَىٰ أَدْبَارِهِمْ نُفُورًا
اور ان کے دلوں پر ایک ڈھکنا رکھتے ہیں کہ قرآن کو نہ سمجھیں ‘ اور ان کے کانوں میں گرانی ڈالتے ہیں ، اور جب تو قرآن میں اپنے رب کا وحدانیت کے ساتھ ذکر کرتا ہے ، تو نفرت کرکے اپنے پیٹھ پھیر کر الٹے بھاگتے ہیں ۔
* أَكِنَّةً، كِنَانٌ کی جمع ہے ایسا پردہ جو دلوں پر پڑ جائے۔ وَقْرٌ کانوں میں ایسا ثقل یا ڈاٹ جو قرآن کے سننے میں مانع ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے دل قرآن کے سمجھنے سے قاصر اور کان قرآن سن کر ہدایت قبول کرنے سے عاجز ہیں، اور اللہ کی توحید سے انہیں اتنی نفرت ہے کہ اسے سن کر تو بھاگ ہی کھڑے ہوتے ہیں، ان افعال کی نسبت اللہ کی طرف، بہ اعتبار خلق کے ہے۔ ورنہ ہدایت سے محرومی ان کے جمود وعناد ہی کا نتیجہ تھا۔