سورة النحل - آیت 103

وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ ۗ لِّسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَٰذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِينٌ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور ہمیں معلوم ہے کہ وہ (اہل مکہ) کہتے ہیں کہ محمد (ﷺ) کو ایک آدمی سکھلاتا ہے (حالانکہ) جس کی طرف نسبت کرتے ہیں (کہ فلاں شخص سکھلاتا ہے) اس کی زبان عجمی ہے ، اور یہ فصیح عربی زبان ہے ۔(ف ٢)

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* بعض غلام تھے جو تورات وانجیل سے واقف تھے، پہلے وہ عیسائی یا یہودی تھے، پھر مسلمان ہوگئے ان کی زبان بھی غیر فصیح تھی۔ مشرکین مکہ کہتے تھے کہ فلاں غلام، محمد کو قرآن سکھاتا ہے۔ ** اللہ تعالٰی نے جواب میں فرمایا کہ یہ جس آدمی، یا آدمیوں کا نام لیتے ہیں وہ تو عربی زبان بھی روانی کے ساتھ نہیں بول سکتے، جب کہ قرآن تو ایسی صاف عربی زبان میں ہے جو فصاحت و بلاغت اور اعجاز بیان میں بےنظیر ہے اور چلینج کے باوجود اس کی مثل ایک سورت بھی بنا کر پیش نہیں کی جا سکتی، دنیا بھر کے فصحا وبلغا اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ عرب اس شخص کو عجمی (گونگا) کہتے تھے جو فصیح وبلیغ زبان بولنے سے قاصر ہوتا تھا اور غیر عربی کو بھی عجمی کہا جاتا ہے کہ عجمی زبانیں بھی فصاحت وبلاغت میں عربی زبان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔