ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۚ يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
پھر ہر طرح کا میوہ کھا ، پھر اپنے رب کی راہوں میں چل ، کہ صاف پڑی ہیں ، ان مکھیوں کے پیٹ میں سے پینے کی چیز (شہد) رنگ برنگ کی نکلتی ہے ، اس میں آدمیوں کے لئے شفا ہے ، بیشک فکر کرنے والوں کیلئے اس میں نشان ہے ۔
1- شہد کی مکھی پہلے پہاڑوں میں، درختوں میں، انسانی عمارتوں کی بلندیوں پر اپنا مسدس خانہ اور چھتہ اس طرح بناتی ہے کہ درمیان میں کوئی شگاف نہیں رہتا۔ پھر وہ باغوں، جنگلوں، وادیوں اور پہاڑوں میں گھومتی پھرتی ہے اور ہر قسم کے پھلوں کا جوس اپنے پیٹ میں جمع کرتی ہے اور پھر انہیں راہوں سے، جہاں جہاں سے وہ گزرتی ہے، واپس لوٹتی ہے اور اپنے چھتے میں آ کر بیٹھ جاتی ہے، جہاں اس کے منہ یا دبر سے وہ شہد نکلتا ہے جسے قرآن نے ”شَرَابٌ“ سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی مشروب روح افزا۔ 2- کوئی سرخ، کوئی سفید، کوئی نیلا اور کوئی زرد رنگ کا، جس قسم کے پھلوں اور کھیتوں سے وہ خوراک حاصل کرتی ہے، اسی حساب سے اس کا رنگ اور ذائقہ بھی مختلف ہوتا ہے۔ 3- شِفَاء میں تنکیر تعظیم کے لئے ہے۔ یعنی بہت سے امراض کے لئے شہد میں شفا ہے۔ یہ نہیں کہ مطلقًا ہر بیماری کا علاج ہے۔ علمائے طب نے تشریح کی ہے کہ شہد یقیناً ایک شفا بخش قدرتی مشروب ہے۔ لیکن مخصوص بیماریوں کے لئے نہ کہ ہر بیماری کے لئے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (ﷺ) کو حلوا (میٹھی چیز) اور شہد پسند تھا۔ (صحيح بخاری، كتاب الأشربة، باب شراب الحلواء والعسل)، ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا ”تین چیزوں میں شفا ہے، فصد کھلوانے (پچھنے لگانے) میں, شہد کے پینے میں, اور آگ سے داغنے میں۔ لیکن میں اپنی امت کو داغ لگوانے سے منع کرتا ہوں“۔ (بخاری، باب الدواء بالعسل ) حدیث میں ایک واقعہ بھی آتا ہے کہ اسہال (دست) کے مرض میں آپ (ﷺ) نے شہد پلانے کا مشورہ دیا، جس سے دستوں میں اضافہ ہوگیا، آکر بتلایا گیا، تو دوبارہ آپ (ﷺ) نے شہد پلانے کا مشورہ دیا، جس سے مزید فضلات خارج ہوئے اور گھر والے سمجھے کہ شاید مرض میں اضافہ ہوگیا ہے پھر نبی (ﷺ) کے پاس آئے آپ (ﷺ) نے تیسری مرتبہ فرمایا ”اللہ سچا ہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے“، جا اور اسے شہد پلا چنانچہ تیسری مرتبہ میں اسے شفائے کاملہ حاصل ہو گئی۔ (بخاری، باب دواء المبطون ومسلم، كتاب السلام، باب التداوي بسقي العسل)