سورة یوسف - آیت 90

قَالُوا أَإِنَّكَ لَأَنتَ يُوسُفُ ۖ قَالَ أَنَا يُوسُفُ وَهَٰذَا أَخِي ۖ قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا ۖ إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

وہ بولے ، کیا سچ ، (مچ) تم ہی یوسف (علیہ السلام) ہے ؟ کہا ہاں میں یوسف (علیہ السلام) ہوں اور یہ میرا بھائی ہے ، اللہ نے ہم پر فضل کیا ۔ بیشک جو ڈرتا اور صبر کرتا ہے ، تو اللہ نیکوں کا اجر ضائع نہیں کرتا

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- بھائیوں نے جب عزیز مصر کی زبان سے اس یوسف (عليہ السلام) کا تذکرہ سنا، جسے انہوں نے بچپن میں کنعان کے ایک تاریک کنویں میں پھینک دیا تھا، تو وہ حیران بھی ہوئے اور غور سے دیکھنے پر مجبور بھی کہ کہیں ہم سے ہم کلام بادشاہ، یوسف (عليہ السلام) ہی تو نہیں؟ ورنہ یوسف (عليہ السلام) کے قصے کا اسے کس طرح علم ہو سکتا ہے؟ چنانچہ انہوں نے سوال کیا کہ کیا تو یوسف (عليہ السلام) ہی تو نہیں؟۔ 2- سوال کے جواب میں اقرار و اعتراف کے ساتھ، اللہ کا احسان کا ذکر اور صبر و تقویٰ کے نتائج حسنہ بھی بیان کر کے بتلا دیا کہ تم نے مجھے ہلاک کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ لیکن یہ اللہ تعالٰی کا فضل و احسان ہے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ کنوئیں سے نجات عطا فرمائی، بلکہ مصر کی فرمانروائی بھی عطا فرما دی اور یہ نتیجہ ہے اس صبر اور تقویٰ کا جس کی توفیق اللہ تعالٰی نے مجھے دی۔