سورة البقرة - آیت 148

وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ہر کسی کے لئے ایک جانب ہے جس کی طرف وہ منہ کرتا ہے سو تم نیکیوں کی طرف دوڑو جہاں بھی تم ہو گے اللہ تم سب کو اکٹھا کر لائے گا ، بیشک اللہ ہر شے پر قادر ہے ۔ (ف ٣)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1-یعنی ہر مذہب والے نے اپنا پسندیدہ قبلہ بنا رکھا ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا ہے۔ ایک دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ہر ایک مذہب نے اپنا ایک منہاج اور طریقہ بنا رکھا ہے، جیسے قرآن مجید کے دوسرے مقام پر ہے: ﴿لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِنْ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ﴾ [المائدة: 48]. یعنی اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور ضلالت دونوں کی وضاحت کے بعد انسان کو ان دونوں میں سے کسی کو بھی اختیار کرنے کی جو آزادی دی ہے، اس کی وجہ سے مختلف طریقے اور دستور لوگوں نے بنا لئے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب کو ایک ہی راستےیعنی ہدایت کے راستے پر چلا سکتا تھا، لیکن یہ سلب اختیارات کے بغیر ممکن نہ تھا اور اختیار دینے سے مقصود ان کا امتحان ہے۔ اس لئے اےمسلمانو! تم تو خیرات کی طرف سبقت کرو، یعنی نیکی اور بھلائی ہی کے راستے پر گامزن رہو اور یہ وحی الٰہی اور اتباع رسول (ﷺ) ہی کا راستہ ہے جس سے دیگر اہل ادیان محروم ہیں۔