إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ رَبِّي وَرَبِّكُم ۚ مَّا مِن دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا ۚ إِنَّ رَبِّي عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
میں نے اللہ پر جو میرا اور تمہارا رب ہے بھروسا کیا ، کوئی چلنے والا نہیں ہے ، جس کی چوٹی اللہ کے ہاتھ میں نہ ہو ، ضرور میرا رب راہ راست پر ہے۔ (ف ١)
* یعنی جس ذات کے ہاتھ میں ہرچیز کا قبضہ و تصرف ہے، وہی ذات ہے جو میرا اور تمہارا رب ہے میرا توکل اسی پر ہے۔ مقصد ان الفاظ سے حضرت ہود (عليہ السلام) کا یہ ہے کہ جن کو تم نے اللہ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے ان پر بھی اللہ ہی کا قبضہ و تصرف ہے، اللہ تعالٰی ان کے ساتھ جو چاہے کر سکتا ہے، وہ کسی کا کچھ نہیں کر سکتے۔ ** یعنی وہ جو توحید کی دعوت دے رہا ہے یقیناً یہ دعوت ہی صراط مستقیم ہے اس پر چل کر نجات اور کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہو اور اس صراط مستقیم سے اعراض انحراف تباہی وبربادی کا باعث ہے۔