سورة التوبہ - آیت 107

وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِن قَبْلُ ۚ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَىٰ ۖ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جنہوں نے (مدینہ میں) بہ نیت ضرور وکفر ضرور ہے مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے اور اس کی گھات کیلئے جو اللہ اور اس کے رسول سے پہلے لڑچکا ہے ، ایک مسجد بنائی ہے ، اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے صرف بھلائی کا ارادہ کیا تھا اور اللہ گواہی دیتا ہے ، کہ وہ جھوٹے ہیں (ف ١) ۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس میں منافقین کی ایک اور نہایت قبیح حرکت کا بیان ہے کہ انہوں نے ایک مسجد بنائی۔ اور نبی (ﷺ) کو باور کرایا کہ، بارش، سردی اور اس قسم کے موقع پر بیماروں اور کمزوروں کو زیادہ دور جانے میں دقت پیش آتی ہے ان کی سہولت کے لئے ہم نے یہ مسجد بنائی ہے۔ آپ (ﷺ) وہاں چل کر نماز پڑھیں تاکہ ہمیں برکت حاصل ہو۔ آپ (ﷺ) اس وقت تبوک کے لئے پابہ رکاب تھے، آپ (ﷺ) نے واپسی پر نماز پڑھنے کا وعدہ فرمایا۔ لیکن واپسی پر وحی کے ذریعے سے اللہ تعالٰی نے منافقین کے اصل مقاصد کو بے نقاب کر دیا کہ اس سے وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا، کفر پھیلانا مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنا اور اللہ اور اللہ کے رسول (ﷺ) کے دشمنوں کے لئے کمین گاہ مہیا کرنا چاہتے ہیں۔ 2- یعنی جھوٹی قسمیں کھا کر وہ نبی کو فریب دینا چاہتے تھے لیکن اللہ تعالٰی آپ (ﷺ) کو ان کے مکرو فریب سے بچا لیا اور فرمایا کہ ان کی نیت صحیح نہیں اور یہ جو کچھ ظاہر کر رہے ہیں، اس میں جھوٹے ہیں۔