سورة التوبہ - آیت 101

وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور بعض دیہاتی جو تمہارے گردا گرد ہیں ، منافق ہیں اور بعض مدینہ والے نفاق پر اڑ رہے ہیں ، تو انہیں نہیں جانتا ہم جانتے ہیں ، ہم انہیں دنیا میں دوبار عذاب دینگے پھر بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ (ف ١)

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* مَرَدَ اور تَمَرَّدَ کے معنی ہیں نرمی ملائمت (چکناہٹ) اور تجرد۔ چنانچہ اس شاخ کو جو بغیر پتے کے ہو، وہ گھوڑا جو بغیر بال کے ہو، وہ لڑکا جس کے چہرے پر بال نہ ہوں، ان سب کو اَمْرَدُ کہا جاتا ہے اور شیشے کو صَرْح مُمَرَّد اَیْ مُجَرَّدً کہا جاتا ہے۔ ﴿مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ﴾کے معنی ہوں گے تَجَرَّدُوا عَلیَ النِّفَاقِ، گویا انہوں نے نفاق کے لئے اپنے آپ کو خالص اور تنہا کر لیا، یعنی اس پر ان کا اصرار اور استمرار ہے۔ ** کتنے واضح الفاظ میں نبی (ﷺ) سے علم غیب کی نفی ہے۔ کاش اہل بدعت کو قرآن سمجھنے کی توفیق نصیب ہو۔ *** اس سے مراد بعض کے نزدیک دنیا کی ذلت و رسوائی اور پھر آخرت کا عذاب ہے اور بعض کے نزدیک دنیا میں ہی دوہری سزا ہے۔