كَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ كَانُوا أَشَدَّ مِنكُمْ قُوَّةً وَأَكْثَرَ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُم بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُم بِخَلَاقِهِمْ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خَاضُوا ۚ أُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
جس طرح تم سے اگلے تھے ، وہ قوت اور مال ، اور اولاد میں تم سے زیادہ تھے ۔ سو اپنے نصیب کا فائدہ دنیا میں اٹھا گئے ، پھر تم نے بھی اپنے نصیب کا فائدہ اٹھا لیا ، جیسے تم سے اگلے اپنے نصیب کا فائدہ اٹھا گئے ، اور تم نے ویسی بحث کی جیسے وہ کر گئے ، ان کے اعمال دنای اور آخرت میں ضائع ہوئے اور وہی زیان کار رہے (ف ١) ۔
1- یعنی تمہارا حال بھی اعمال اور انجام کے اعتبار سے امم ماضیہ کے کافروں جیسا ہی ہے۔ اب غائب کی بجائے، منافقین سے خطاب کیا جا رہا ہے۔ 2- ”خَلاق“ کا دوسرا ترجمہ دنیاوی حصہ بھی کیا گیا ہے۔ یعنی تمہاری تقدیر میں دنیا کا جتنا حصہ لکھ دیا گیا ہے، وہ برت لو، جس طرح تم سے پہلے لوگوں نے اپنا حصہ برتا اور پھر موت یا عذاب سے ہم کنار ہوگئے۔ 3- یعنی آیات الٰہی اور اللہ کے پیغمبروں کی تکذیب کے لئے۔ یا دوسرا مفہوم ہے کہ دنیا کے اسباب اور لہو و لعب میں جس طرح وہ مگن رہے، تمہارا بھی یہی حال ہے۔ آیت میں پہلے لوگوں سے مراد اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ ہیں۔ جیسے ایک حدیث میں نبی (ﷺ) نے فرمایا ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں کی ضرور متابعت کروگے، بالشت بہ بالشت، ذراع بہ ذراع اور ہاتھ بہ ہاتھ۔ یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں گھسے ہوں تو تم بھی ضرور گھسو گے، لوگوں نے پوچھا، کیا اس سے آپ کی مراد اہل کتاب ہیں؟ آپ نے فرمایا، اور کون؟“۔ (صحيح بخاری، كتاب الاعتصام مسلم، كتاب العلم)۔ البتہ ہاتھ بہ ہاتھ (بَاعًا بِبَاع) کے الفاظ ان میں نہیں ہیں یہ تفسیر طبری میں منقول ایک اثر میں ہے۔ 4- أُولَئِكَ سے مراد وہ لوگ ہیں جو مذکورہ صفات وعادات کے حامل ہیں مشبہین بھی اور مشبہ بہم بھی یعنی جس طرح وہ خاسر ونامراد رہے تم بھی اسی طرح رہو گے حالانکہ وہ قوت میں تم سے زیادہ سخت اور مال واولاد میں بھی بہت زیادہ تھے اس کے باوجود وہ عذاب الہی سے نہ بچ سکے تو تم جو ان سے ہر لحاظ سے کم ہو کس طرح اللہ کی گرفت سے بچ سکتے ہو۔